ہم کو معلوم ہے ”جمہوریت“ کی حقیقت لیکن


یوں تو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اسے جمہوریت کبھی بھی راس نہیں آئی اور نہ کبھی عوام نے حقیقی جمہوریت کی شکل دیکھی ہے۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف ضرور بنایا گیا ہے۔ خصوصاً گزشتہ تیس برس سے تو جمہوریت کے نام پر ملک اور عوام پر باقاعدہ ڈاکا ڈالا گیا۔ ( جنرل مشرف کے دور میں بھی یہ تماشا جاری رہا) ۔ ان تیس برسوں میں خطے کے کئی ملکوں نے انتہائی سرعت سے ترقی کی جب کہ یہی تیس برس پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔

اس عرصے میں چند ہزار خاندانوں کی قسمت بدل گئی جبکہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس دوران بڑے بڑے کامیاب ادارے تباہ ہو گئے۔ سٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا، سوئی گیس، ریل، بس سروس، پوسٹ آفس، سکول، اسپتال، پولیس اور دیگر بے شمار ادارے جو ترقی یافتہ ملکوں کی سطح پر تھے گھٹنوں پر گر کر نہ صرف چلنے سے عاری ہو گئے بلکہ سفید ہاتھی کی طرح ملکی معیشت کو نگلنے لگے۔ وہ بھی ایک دور تھا جب ریڈیو پاکستان بھی ملکی کمائی کا ذریعہ تھا۔

اگر کوئی شخص ٹی وی خریدتا تھا تو وہ اس کا ٹیکس ادا کرتا تھا، سائیکل خریدتا تھا تو اس کی بتی لگواتا تھا کیونکہ قانونی تقاضا تھا۔ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل اور پوسٹ آفس سے کثیر آمدنی ہوتی تھی۔ تمام بڑے شہروں میں سرکاری بسیں چلتی تھیں۔ سڑک کے کنارے درخت اور پھول اگائے جاتے تھے۔ بس اسٹاپ پر پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہوتا تھا۔ سرکاری سکولوں کے بہترین نتائج آتے تھے۔ ہر سکول بلکہ ہر ادارے میں کھیلوں کا انعقاد اور ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔

پی آئی اے، حبیب بنک، کسٹم، واپڈا اور دیگر اداروں نے بڑے بڑے قومی کھلاڑیوں کو ملازمتیں دیں جنہوں نے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔ 1960 سے 1972 کے بارہ برس کے دوران امریکن ڈالر 4.76 روپوں سے ایک پیسہ بھی آگے نہیں بڑھا۔ جبکہ 2008 سے 2019 کے درمیان ڈالر ساٹھ روپے سے ایک سو اسی تک پہنچ گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی روپے کی اتنی وقعت تھی کہ چند سو روپوں کے ساتھ آپ دنیا کی سیر کے لیے نکل سکتے تھے۔ دوسری طرف پاکستان کی دنیا بھر میں انتہائی عزت تھی۔

یہ عزت اس وجہ سے نہیں تھی کہ پاکستان کوئی امیر ملک تھا بلکہ پاکستان کی قیادت ایماندار تھی۔ وہ کک بیک نہیں مانگتے تھے نہ بڑے بڑے سودوں میں کمیشن طلب کرتے تھے۔ جس دور میں ایر مارشل نور خان پاکستان ایر لائن کے چیر مین تھے ان دنوں پی آئی اے نے فرانس سے کچھ جہاز خریدے۔ ڈیل کے بعد طیارہ ساز کمپنی نے نور خان کو ایک معقول رقم پیش کی جو انہوں نے لے لی اور پاکستان آ کر پی آئی کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی۔ 1963 ء میں پاکستان نے مغربی جرمنی کو بیس ملین ڈالر قرض دیا جو آج کی تاریخ میں دو سو پچاس ملین ڈالر کے برابر ہے۔

دیگر کئی ملک پاکستان کے مقروض تھے۔ نوزائیدہ ملک ہونے اور وسائل کی کمی کے باوجود بڑے بڑے ڈیم اور ادارے اور دفاتر بن رہے تھے۔ سکول، اسپتال، دفاع، ایر لائن، توانائی کے ادارے، سڑکیں پل، ڈیم اور دیگر سب کی تعمیر نو کرنی تھی وہ بھی قرض لیے بغیر۔ پی آئی اے جو آج حکومت سے پیسے لے کر تنخواہیں ادا کرتی ہے اتنا کما رہی تھی کہ اس نے نیویارک میں ایک بڑا ہوٹل خرید لیا۔

ستر اور اسی کی دہائی میں خود میں نے کراچی میں سرکلر ریل اور ہزاروں لال رنگ کی سرکاری بسیں چلتی دیکھیں اور ان پر سفر بھی کیا۔ یہ وہ دور تھا جب صبح باہر نکلو تو سڑکیں اور گلیاں دھلی ہوئی ملتی تھیں۔ بازاروں میں صفائی کے بعد چھڑکاؤ ہوتا تھا۔ نلکوں میں صاف پانی آتا تھا۔ گیس اور بجلی کبھی بند نہیں ہوتی تھی سوائے بریک ڈاؤن کے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کا لفظ بہت بعد میں غالباً دو ہزار کے لگ بھگ سننے کو ملا جو بعد میں گلے ہی پڑ گیا۔

یہ جو آج کل کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی بات کوئی نہیں سنتا کیونکہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ملک ہے، بالکل غلط ہے۔ معاشی کمزوری کی وجہ بھی یہ نام نہاد جمہوری جماعتیں اور کرپٹ سیاست دان ہیں۔ دراصل بحیثیت قوم ہمارا کردار ایسا ہے کہ دنیا ہماری پرواہ نہیں کرتی۔ جس ملک کا سربراہ امداد لینے کے لیے جاتا ہو تو تو ڈیڑھ سو لوگوں کی فوج ظفر موج ساتھ لے کر جاتا ہو۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرتا ہو اور کرائے کی لیموزین میں گھومتا ہو اس ملک کی کون عزت کرے گا۔

جس ملک میں امداد لینے جاتے ہوں انہی ملکوں میں ہمارے سیاست دانوں کی اربوں کی جائیدادیں ہوں جو ملک کے خزانے کو لوٹ کر بنی ہوں تو لوگ آپ کے گلے میں ہار تو نہیں ڈالیں گے۔ جس ملک کے ہزاروں لاکھوں سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور سفارت کاروں کے اکاؤنٹ بیرون ملک ہوں۔ سیاست اور افسری پاکستان میں کرتے ہوں لیکن فیملیاں باہر رہتی ہوں۔ گھر اور جائیدادیں باہر بنی ہوں تو وہ ملک خاک ترقی کرے گا۔ پچھلے پچیس تیس برس سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں آسٹریلیا میں آنے والے سفارت کار یہاں پہنچتے ہی اپنی اور بچوں کی شہریت کے لیے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔

یہاں کی پوسٹنگ ختم ہوتے ہی استعفیٰ دے کر یہیں رک جاتے ہیں۔ جن کی ملازمت ابھی باقی ہوتی ہے وہ خود واپس جاتے ہیں لیکن ان کی فیملی اور بچے یہیں رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ملنے والی تنخواہ سے وہ آسٹریلیا میں بال بچوں کو کیسے پال اور پڑھا سکتے ہیں۔ ان پاکستانی افسروں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے بال بچے بیرون ملک پل رہے ہیں۔ ان افسروں کو ملک کی معیشت، تعلیم اور صحت و صفائی کی کیا فکر ہو گی۔

سیاست دان او ر بیوروکریسی ایک دوسرے کو تحفظ دیتی ہے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ملک سے کرپشن کا نظام دانستہ ختم نہیں ہونے دیا جاتا کیونکہ یہ نظام ان کرپٹ حکمرانوں کو سوٹ کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں اشرافیہ اور عوام دو واضح طبقے ہیں۔ عوام کے سکول، اسپتال، دکانیں، گھر، ٹرانسپورٹ، رہن سہن، لباس، زبان، تہذیب و تمدن، پسند ناپسند سب کچھ اشرافیہ سے الگ ہے۔ ان دو طبقات کے درمیان اتنی واضح حد فاصل قائم ہے کہ ادھر کا فرد ادھر اور ادھر کا ادھر نہیں آ سکتا۔

حکمران ہر حال میں حکمران اور عوام ہر حال میں عوام رہیں گے۔ کیونکہ عوام کی تقدیر جن کے ہاتھوں میں ہے وہ صرف اپنے طبقے کے مفادات کے نگران ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال نیب کے مقدمات کے حوالے سے کرپٹ سیاست دانوں کا اتحاد ہے۔ وہ کس کس طرح ایک دوسرے کو تحفظ دے رہے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے جو ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی بات کرتے تھے وہ آج ایک دوسرے کی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ نظام کے تحت ان کرپٹ لوگوں کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا کیونکہ پورے کا پورے نظام انہیں تحفظ دے رہا ہے۔ یہ نظام انہی کا وضع کردہ ہے وہ اسے ختم نہیں ہونے دیں گے چاہے ملک ختم ہو جائے۔ اس دوران عوام جمہوریت، جلسوں، ریلیوں، تقریروں دھرنوں اور نعروں سے جی بہلا سکتے ہیں۔ مرزا غالب ؔ سے معذرت کے ساتھ ایسی جمہوریت کے لیے یہی کہوں گا۔

ہم کو معلوم ہے ”جمہوریت“ کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments