الیگزینڈر فلیمنگ اور ونسٹن چرچل کی کہانی


اس دن بھی وہ حسب معمول کھیتوں کی طرف جا رہا تھا جب اچانک کسی بچے کی چیخ و پکار نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ وہ سکاٹ لینڈ کا ایک غریب کسان تھا۔ کھیتوں میں جانا، کام کرنا، محنت مشقت سے فصلوں کی پرورش اور انہیں بیچ کر اپنا اور خاندان کا پیٹ بھرنا، بس یہی اس کی زندگی تھی۔ اس نے آواز سنی تو فوراً اس جانب دوڑ پڑا۔ وہاں ایک بچہ دلدل کے ایک جوہڑ میں ڈوب رہا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اسے تسلی دی، جب بچہ پرسکون ہو گیا تو اس نے قریب درخت سے ایک لمبی سی شاخ توڑ کر اسے بچے کی جانب سیدھا کیا اور کہا : یہ شاخ مضبوطی سے پکڑ لو، میں تمہیں اپنی جانب کھینچ لوں گا۔

بچے نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ دلدل سے باہر خشک زمین پر کھڑا تھا۔ اس کی زندگی بچ چکی تھی لیکن کسان نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بچے سے کہا : تمہارے کپڑے گندے ہو چکے ہیں، میرے ساتھ میرے گھر تک چلو، وہاں فریش ہو لینا۔ کسان کی بات معقول تھی لیکن بچے نے جواب دیا : میرے والد انتظار کر رہے ہوں گے اور پریشان بھی ہوں گے لہذا میں آپ کی آفر قبول نہیں کر سکتا۔ بچے نے یہ کہا اور جدھر سے آیا تھا ادھر ہی بھاگ گیا۔

اگلی ہی صبح کسان اٹھا اور کھیتوں کی جانب جانے لگا تو اس نے ایک خوب صورت بگھی کو اپنے گھر کی جانب آتے دیکھا۔ بگھی اس کے مکان کے پاس آ کر رکی تو اس میں سے ایک بارعب شخص نمودار ہوا۔ اس نے کسان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: کل آپ نے جس بچے کی جان بچائی تھی میں اسی بچے کا باپ ہوں۔ آپ کا شکریہ، بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ غریب کسان نے جواب دیا : آپ کی تشریف آوری کا شکریہ لیکن مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں کیونکہ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا۔

رئیس نے بہت اصرار کیا لیکن کسان ٹس سے مس نہ ہوا۔ مایوس ہو کر وہ جانے ہی والا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک لڑکے پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی۔ وہ ایک لمحہ رکا، کسان کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگا :کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟ کسان نے ایک قدم دور کھڑے بیٹے کو بازو کی مدد سے بغل میں کیا اور محبت سے اس کا سر سہلاتے ہوئے جواب دیا :جی! یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ کسان کی بات سن کر اس نے سر ہلایا اور کہنے لگا: ایک کام کرتے ہیں۔ تمہارا بیٹا میرے ساتھ لندن میں جائے گا اور اسی سکول میں پڑھے گا جس میں میرا وہ بیٹا پڑھتا ہے جسے کل آپ نے بچایا تھا۔

کسان نے اپنے بیٹے کی محبت میں پیشکش قبول کر لی اور اسے لندن بھیج دیا۔ وہ بچہ وہاں جا کر پڑھنے لگا۔ اس نے اتنی محنت کی کہ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور ہوا بلکہ لاکھوں لوگوں کا مسیحا بھی قرار پایا۔ کیا آپ جانتے ہیں دنیا اس بچے کو آج ”الیگزینڈر فلیمنگ“ کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں! وہی الیگزینڈر فلیمنگ جس نے پینسلین ایجاد کی جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی۔

لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں ایک مزیدار موڑ اس وقت آیا جب وہ بچہ جسے کسان نے دلدل سے نکالا تھا، جنگ عظیم سے پہلے ایک بار پھر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ اب کی بار اسے کسی دلدل کا سامنا نہیں تھا بلکہ اسے ایک بیماری نے آن لیا تھا۔ اس کی موت یقینی تھی لیکن پھر اس کی جان بچ گئی لیکن اب کی بار اس کی جان بچانے کسان نہیں آیا بلکہ اس کا بیٹا آیا۔ رئیس کے بیٹے نے اس کی بنی ہوئی ویکسین استعمال کی اور دنوں میں ٹھیک ہو گیا۔ کیا آپ نے جانتے ہیں کہ وہ باپ بیٹا کون تھے؟ اس رئیس کا نام ”روڈ ولف چرچل“ اور اس کا بیٹا جو دلدل میں گرا تھا اس کا نام ونسٹن چرچل تھا۔ جی ہاں! و ہی ونسٹن چرچل جو برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔

آپ غور کریں اگر وہ کسان اس رئیس کے بیٹے کی جان نہ بچاتا تو کیا وہ اس کے بیٹے کو لندن لے کر جاتا؟ کسان نے اس رئیس کے بیٹے چرچل کی جان بچا کر اس کے ساتھ بھلائی، وہی بھلائی اس کے اپنے بیٹے الیگزینڈر فلیمنگ کی طرف پلٹ آئی اور اسے اعلیٰ تعلیم کا موقع میسر آیا۔ یہ بھلائی کا فرسٹ فیز تھا۔ یہاں سے بھلائی کا دوسرا فیز شروع ہوا۔ رئیس نے کسان کے بیٹے الیگزینڈر فلیمنگ کی پڑھائی کی ذمہ داری اٹھا کر اس کے ساتھ بھلائی تو وہی بھلائی اس رئیس کے اپنے بیٹے ونسٹن چرچل کی طرف پلٹ آئی۔ جب وہ موت کے دہانے پر تھا تو اس کی جان بچانے کا سبب وہی ویکسین بنی جسے اس لڑکے نے بنایا تھا جس کی تعلیم کی ذمہ داری اس کے باپ نے اٹھائی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments