آج بیت المقدس کی فتح کا دن ہے


آج رجب کی 27 تاریخ ہے۔ 835 سال (شمسی) قبل آج کے دن سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبی حملہ آوروں کے قبضے سے واگزار کرایا تھا۔ بلاشبہ یہ سلطان کی بہت بڑی فتح تھی جس کی بنا پر اس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں بہت جلی حروف میں کیا جاتا ہے۔

یہ کروسیڈز کا، ہمارے ہاں جنھیں صلیبی جنگیں کہا جاتا ہے، زمانہ تھا۔ ان کے اسباب پر بہت زیادہ بحث مباحثہ موجود ہے۔ دور حاضر کے مغربی اور مسلمان مورخین مذہبی سے زیادہ ان کے سیاسی اور اقتصادی عوامل پر زور دیتے ہیں۔ جنگ کی ابتدا کسی بھی وجہ سے ہو، جب یہ عمل شروع ہو جاتا ہے تو پھر حالات کا دھارا اپنا رخ خود متعین کرتا ہے۔ نظریاتی اور مذہبی جذبات پیچھے رہ جاتے ہیں۔ عسکری حکمت عملی، تجارتی معاہدے، پروپیگنڈا، سیاسی فوائد کے حصول کے لیے سازباز کرنا زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی سب کچھ ہمیں ان جنگوں میں بھی نظر آتا ہے۔

صلیبی جنگوں کے متعلق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی جو بھی اہمیت تھی وہ اہل یورپ کے لیے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ عام سا اور غیر اہم واقعہ تھا۔ حملہ آور فوجوں کا چند شہروں پر قبضہ کر لینا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے کسی مسلمان مورخ نے صلیبی جنگوں پر بطور خاص کوئی کتاب تصنیف نہیں کی تھی۔ دیگر جنگوں کے واقعات و احوال بیان کرتے ہوئے صلیبیوں کے ساتھ معرکوں کا بھی ذکر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اچھی بات ہے کہ ہم عصر مورخین کی لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں اور متعلقہ مواد انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔

صلیبی 1098 میں سواحل شام پر پہنچے تھے اور آہستہ آہستہ مختلف شہروں کو فتح کرتے ہوئے 1099 میں یروشلم پر قابض ہو گئے تھے۔ اس وقت سیاسی معنوں میں امت مسلمہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ بغداد کی عباسی خلافت اور مصر کی فاطمی خلافت دونوں نزع کے عالم میں تھے۔ مختلف علاقوں پر سلاطین اور اتابیگ حکمران تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان دنیا میں نہ کہیں القدس چلو کے نعرے بلند ہوئے نہ صلیبیوں کے خلاف جہاد کے فتوے جاری ہوئے۔

صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بعد شہر میں بہت قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا وہ بہت معلوم و معروف ہے۔ شہر سے جان بچا کر نکلنے والے قاضی ابو سعید ہروی نے جب بغداد پہنچ کر خلیفہ کے سامنے مسلمانوں پر کیے گئے مظالم بیان کیے تو قصر خلافت میں گریہ و بکا برپا ہو گیا۔ قصر خلافت اس سے کچھ زیادہ کرنے کا اہل بھی نہیں تھا۔ ترک سلطان کے پاس علما و امرا کا ایک وفد روانہ کیا گیا لیکن وہ راستے سے واپس پلٹ آیا کیونکہ سلاطین اسلام باہمی جنگ و جدل میں مصروف تھے۔

جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے 88 برس بعد بیت المقدس کو دوبارہ فتح کیا تو اس میں جولائی 1187 میں حطین کے مقام پر ہونے والی جنگ فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے آغاز سے پہلے کا کچھ احوال مورخ ابن اثیر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

حطین کی جنگ سے پہلے نصرانیوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔ سلطان نے اپنے کمانڈروں کا اجلاس بلا کر جنگ کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ زیادہ تر کی رائے تھی کہ جنگ سے احتراز کرنا بہتر ہو گا۔ لیکن دوسرے فریق کی رائے تھی کہ ہمیں فرنگیوں کے علاقوں کو تاخت و تاراج کرتے رہنا چاہیے اور جس بھی لشکر کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہو اس کے ساتھ جنگ کرنا چاہیے کیونکہ اہل مشرق ہم پر لعنت ملامت کر رہے ہیں کہ ہم کفار کے ساتھ جنگ آزمائی کرنے کے بجائے اپنوں کے ساتھ لڑائی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ابن اثیر کے آخری جملے کا اجمال کسی قدر تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور حکومت کا آغاز سن 1174 سے ہوتا ہے۔ پہلے بارہ برس ایک آدھ جنگ کے علاوہ سلطان کی صلیبیوں سے کوئی معرکہ آرائی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی ترجیح شام اور موصل کے علاقے میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا اور توسیع دینا تھا چنانچہ اس کی جنگیں زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ تاریخ ابن خلدون میں درج ہے کہ سلطان کو یہ اطلاع ملی کہ فرنگیوں نے دمشق کی عملداری پر حملہ کر دیا ہے اور وہ دریا کے مقام تک پہنچ گئے ہیں مگر سلطان اس خبر سے متاثر نہیں ہوا اور اس نے اپنا کام (موصل کی طرف پیش قدمی) جاری رکھا۔ مگر وہ موصل کو فتح کرنے میں ناکام رہا۔ عباسی خلیفہ ناصر نے ایوبی اور سیف الدین میں صلح کرانے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی۔

دیکھا جائے تو بطور سلطان اس کی حکمت عملی درست تھی کہ پہلے وہ مشرقی علاقوں پر اپنا قبضہ مضبوط کر لے تاکہ مغربی محاذ پر جنگ کرتے ہوئے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بیت المقدس کی فتح کے وقت مسلم اور غیر مسلم سبھی مورخین نے سلطان کی فیاضی، رحم دلی اور بلند ہمتی کا بہت تذکرہ کیا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بلا سبب نہیں تھا۔ ایک ناگوار صورت حال سے بچنے کی خاطر سلطان نے معاملہ فہمی اور زیرکی کا ثبوت دیا تھا۔

سلطان کے سیکریٹری اور سوانح نگار عماد الدین الاصفہانی نے ان واقعات کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب شہر کا محاصرہ سخت ہو گیا تو یروشلم کے وفد نے سلطان کے پاس حاضر ہو کر امان طلب کی۔ سلطان نے انکار کرتے ہوئے کہا ہم تمھارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو تم نے یروشلم پر قبضہ کرتے ہوئے اس کی آبادی کے ساتھ روا رکھا تھا۔ تمھیں تہ تیغ کریں گے، غلام بنائیں گے اور بھی بہت کچھ کا تمھیں سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ مایوس ہو کر لوٹ گئے۔

اس سفارت کی ناکامی کے بعد شہر کا فرنگی حاکم بالیان خود وہی درخواست لے کر سلطان کے پاس آیا لیکن اس نے دوبارہ انکار کرتے ہوئے شہر کو بزور شمشیر فتح کرنے کے ارادے کا اعلان کیا۔ مایوس ہو کر بالیان نے کہا، اے سلطان یہ جان لو ہماری کثیر تعداد شہر میں موجود ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ہم اصل میں کتنے ہیں۔ ابھی تو ہم اس آس پر نیم دلی سے جنگ کر رہے ہیں کہ ہماری جانیں بچ جائیں گی۔ ہمیں امید ہے کہ تم ہم سے درگزر کرو گے۔ لیکن اگر ہمیں یقین ہو گیا کہ موت ناگزیر ہے تو پھر خدا کی قسم! ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیں گے، اپنی املاک کو نذر آتش کر دیں گے تاکہ کوئی ایک دینار یا درہم تمھارے ہاتھ نہ لگے۔ اس کے بعد ہم گنبد صغریٰ اور مسجد اقصیٰ کو مسمار کر دیں گے، مسلمان قیدیوں کو، جن کی تعداد پانچ ہزار ہے، موت کے گھاٹ اتار دیں گے، گھوڑوں سمیت تمام جانوروں کو ہلاک کر دیں گے۔ اس کے بعد ہم شہر سے باہر نکل کر جان کی بازی لگا کر مردانہ وار جنگ کریں گے۔ ہمارا ایک ایک جنگ جو مرنے سے پہلے کم از کم ایک مد مقابل کو تو ضرور موت کے گھاٹ اتارے گا۔ ہم عزت کی موت مریں گے یا ایک شاندار فتح ہمارا مقدر ہو گی۔ اب آپ سوچ لیں کہ اس ہٹ دھرمی سے آپ کو کیا حاصل ہو گا۔ آپ شہر تو فتح کر لیں گے لیکن باقی سب کچھ کھو دیں گے۔

اس دھمکی کے بعد سلطان نے اپنے اہل دربار سے مشورہ کیا اور بالیان کی درخواست قبول کر لی۔ طے ہوا کہ بیت المقدس کے تمام مسیحی فی مرد دس دینار، فی عورت پانچ دینار اور فی بچہ دو دینار فدیہ ادا کریں گے۔

عماد الدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب مسیحی شہر خالی کر کے جا رہے تھے تو دروازوں پر متعین عمال نے سخت بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ زر فدیہ کے طور پر ملنے والی رقم زیادہ تر خورد برد کر لی گئی اور اس کا بہت کم حصہ سرکاری خزانے تک پہنچ سکا تھا۔

آخر پر درباری مورخین کی تاریخ نگاری کا ایک انداز ملاحظہ کر لیجیے کہ وہ اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے کس قدر غلو سے کام لیتے تھے۔ عماد الدین نے اپنی کتاب کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا:

میں نے اس تاریخی دفتر کا آغاز سن 583 ہ (بمطابق 1187 ) سے اس لیے کیا ہے کہ عام طور پر تواریخ کا آغاز یا تو تخلیق آدم سے کیا جاتا ہے یا حکومتوں کے تواتر سے۔ اس کے برعکس میں نے نقطہ آغاز ہجرۂ ثانی کو بنایا ہے۔ یہ ہجرت اسلام کی یروشلم کی طرف ہجرت ہے جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے انجام دیا ہے۔ اب تاریخ کا آغاز اس دن سے ہو گا۔ در حقیقت یہ ہجرت پہلی ہجرت سے زیادہ باقی رہنے والی ہے۔ میری گواہی مبنی ہے ان واقعات پر جن کا میں شاہد ہوں، اور میں صرف وہی کچھ درج کروں گا جس کا مجھے تجربہ ہوا ہے۔

نوٹ:اس تحریر کے لیے دیگر کتب کے علاوہ بنیادی استفادہ اس کتاب سے کیا گیا ہے۔
Francesco Gabrieli, Arab Historians of the Crusades


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments