عمران خان: دورہ روس سے پہلے کی کہانی!


کہتے ہیں کہ یہ سب اس وقت شروع ہو چکا تھا جب 25 جولائی 2019 کی رات کو عمران خان امریکہ کا اپنا دورہ مکمل کر کے اسلام آباد ائرپورٹ پر اترے اور وہاں اپنے استقبال کے لئے آنے والوں سے خطاب کیا ایک ایسا خطاب جس میں ان کی باچھیں کھلی پڑ رہی تھیں ان کو اپنی ہنسی چھپانا مشکل ہو رہا تھا۔ اس وقت ملک میں یہ بحث چل رہی تھی کہ عمران خان نے امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں انہیں کشمیر کے معاملے پر ثالثی کے لئے تیار کر لیا ہے اور اندازہ تھا کہ یہی عمران خان کی خوشی کی وجہ تھی تاہم کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں یہ معلوم تھا کہ پاکستان نے اسی دورے سے اپنی آزاد خارجہ پالیسی کی بابت امریکہ کو آگاہ کر دیا تھا۔ ائرپورٹ پر ان کے خطاب میں یہ کہنا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں سے یہ بھی اندازے لگائے جا رہے تھے جیسے وہ اپنے لئے امریکہ سے کوئی بڑی یقین دہانی لائے ہیں اور اب ان کو حکومت چلانے کے لئے درپیش مشکلات میں مدد بھی ملے گی۔

ہر کوئی اپنی حد اور اوقات و مفاد کے مطابق اندازے لگا رہا تھا تاہم ابھی اس دورے کی خبروں کی دھول بیٹھی بھی نہیں تھی کہ بھارت نے اگلے مہینے یعنی اگست کی پانچ تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی قانونی و آئینی حیثیت کو بدل دیا یہ وہ قدم تھا جو ان سب کے کان کھڑے کرنے کے لئے کافی تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کے دورے کے دوران انہوں نے صدر ٹرمپ کو کشمیر کے معاملے پر ثالثی کے لئے راضی کر لیا ہے۔ اسلام آباد میں بعض واقفان حال کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ورلڈ کپ جیتنے کی بات کے پیچھے ان کا ایران کے خلاف اقدام کے معاملے پر امریکہ کو کورا جواب تھا کہ اب بس اور آپ کے ساتھ مزید جنگوں کا حصہ نہیں بن سکتے اور یہ سب لوگ یہ بھی مانتے تھے کہ کشمیر کی حیثیت بدلنے کا اقدام بھارت کے ذریعے پاکستان کو امریکہ کا پیغام تھا۔

اس سے کچھ ہی وقت پہلے پشاور میں اعزازی روسی قونصل خانے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے دوران ہی ہم جیسوں کو یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان اب روس کے قریب ہونے کا فیصلہ کرچکا ہے اور اب اسے امریکہ کی اس ”غیر مطمئن“ ساس والے کردار کے ساتھ مزید چلنا قبول نہیں۔ اس افتتاحی تقریب سے پاکستانی فضائیہ اور بحری افواج کے سابق ہائی رینک افسران کے علاوہ سابق پاکستانی سفارتکاروں نے خطاب کیا جن میں سے ہر ایک کے منہ سے نکلے الفاظ اس جانب واضح اشارہ تھے کہ انہیں روس کو گلے لگانے کی جلدی ہے اور وہ سوویت یونین کو توڑنے کے اپنے کردار پر خوش نہیں تھے۔

اس دوران جب پلوں کے نیچے سے پانی گزر رہا تھا تو پاکستان افغانستان سے امریکہ کے نکلنے میں مدد بھی کر رہا تھا اس نے امریکا کا افغان طالبان کے ساتھ نہ صرف رابطہ کرایا بلکہ ان کے مذاکرات کو کامیاب کیا، اسے افغانستان سے افواج نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنا ہارڈوئیر لے جانے میں بھی مدد دی اور آخر وقت میں اس کے سینکڑوں فوجیوں، سفارتکاروں اور دیگر لوگوں کو اپنے شہر اسلام آباد میں ٹھہرا کر ثابت کیا کہ اس نے امریکہ کے ساتھ ہر قدم پر دل سے مدد کی لیکن یہ سب کرنے کے باوجود بھی دنیا نے کبھی امریکہ کو پاکستان کا سچا ساتھی بنتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ معاشی، سفارتی اور تزویراتی مدد تو کیا کرتا الٹا اس کی حرکتوں سے یہ تاثر مزید پختہ ہوتا گیا کہ وہ ان تینوں میدانوں میں پاکستان کی مشکلات کی وجہ اور پس پردہ محرک بھی ہے جس کا واضح ثبوت امریکن سینٹ میں لایا جانے والا وہ بل ہے جو پاکستان کو افغانستان میں تمام برائیوں کی جڑ قرار دینے اور اسے تڑی لگانے کے لئے پیش کیا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے اس پر پابندیاں لگائی جاسکیں۔

امریکہ کا خیال تھا کہ وہ یہ سب کرتا رہے گا اور دنیا ویسی ہی رہے گی جیسی وہ چاہے گا لیکن یہی وہ وقت تھا جب وہ یہ بھول گیا تھا کہ افغانستان اور عراق سے نکلنے وقت اپنے اتحادیوں کو مایوس کرنے کا اس کا کردار اس کو ایک ناقابل اعتماد دوست ثابت کرچکا تھا۔ اسی کے سنگ پاکستان میں ”مستقل فیصلہ سازوں“ کی سطح پر امریکہ کے بارے میں بے اعتباری کے نقصانات سے مزید بچنے کے لئے 2018 کے عام انتخابات سے قبل ہی یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اب بس۔ اور اس وقت سے امریکہ کی بجائے روس اور چین کے ساتھ جانے کے کام کا آغاز ہوا۔

عمران خان کے حالیہ دورہ روس کے لئے بھی پہلے دن سے کام ہوتا رہا اور اس کی ٹائمنگ بھی کوئی حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ دورہ روس سے پہلے امریکہ میں جمہوریت سے متعلق کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت بھی اس کی جانب سے واضح اعلان تھا کہ اب وہ مزید امریکہ کے زیراثر رہنے کو تیار نہیں ہے اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال اپریل کے وسط میں سعودی آرامکو پر یمن کے حوثی قبائل کی جانب سے حملوں کے بعد ایران کے خلاف مدد سے انکار کے پاکستانی اقدام کو بھی امریکہ میں بہت بری طرح محسوس کیا گیا۔

اس دوران پاکستان چین کے پاس جانے کا فیصلہ کرچکا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب اس نے اپنی معیشت کی بہتری کے لئے عالمی اداروں اور امریکہ کے اثر سے نکلنے کے لئے خطے کے ممالک کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔ یہی وہ وقت تھا جب سی پیک نے روس اور پاکستان کے مابین قربتیں بڑھائیں اور افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد روس نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار دوست بن کر یہ سہولت حاصل کی جائے۔ گوادر سے ایران اور ترکی جانے والا سی پیک کا روٹ روس بھی جا رہا تھا جو دونوں ملکوں کو مزید قریب لایا۔ پاکستان کو روس کے قریب لانے میں روس اور بھارت تعلقات بھی تھے کہ کل کلاں کو پاک بھارت کشیدگی کے وقت روس دونوں کے بیچ آ سکتا تھا اور اگر مستقبل قریب میں بھارت امریکہ کی ایما پر چین کے خلاف کسی اقدام کی غلطی کرتا ہے تو ایسے میں پاکستان کی چین اور روس کے ساتھ جانے کا یہ اقدام اس کے مفاد میں جائے گا۔

عمران خان کے ماسکو جانے سے پہلے طے تھا کہ روسی صدر پیوٹن پہلے پاکستان کا دورہ کریں گے تاہم پاکستان کی جانب سے امریکی ڈیموکریسی کانفرنس میں شرکت سے انکار اور سرمائی کھیلوں کے لئے چین جانے سے معاملات میں تیزی آ گئی اور عمران خان کے سرمائی کھیل دیکھنے کے لئے دورہ چین کے دوران ہی پاکستانی اداروں کے فیصلہ سازوں اور سیاسی حکومت کے مابین اس پر اتفاق ہو چکا تھا کہ عمران خان ایک ایسے وقت میں روس کا دورہ کرے جب روس اپنے تحفظ کے لئے یوکرین پر حملہ کرنے والا ہو۔

تاہم یہ بات بھی خطے کے ان دونوں قوتوں پر پوری طرح واضح ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور روس و چین کے مل کر امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے کے دوران ایک نئی قوت بن چکا ہے جہاں پر اس کی حیثیت ایک آزاد اور خودمختار اہم ترین ملک کی ہے جو اپنے خلاف کسی امریکی اقدام یا پابندیوں میں اضافے کے وقت مزید آزادی سے اپنے فیصلے کرے گا اور اس کے بعد شاید وہ امریکہ کے ساتھ اس حد تک بھی جانے پر تیار نہ ہو جتنا وہ اس وقت جا رہا ہے۔

تاہم یہ بات پاکستان کے ساتھ ساتھ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی معلوم ہو چکی ہے کہ اب پاکستان کے جغرافیہ اور ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت میں اس کے خلاف کچھ کرنا بھی آسان نہ ہو گا خصوصاً جب امریکہ خطے میں قریبا قریبا اپنا مقام کھو چکا ہے اور اس کا سارا انحصار ہی اس وقت صرف بھارت پر محدود رہ گیا ہے اس لئے اب اس بات کے واضح امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو بھی مزید دباؤ میں لانے کی کوشش نہیں کرے گا یہاں تک کہ اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ اب وہ پاکستان کے سر سے ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار بھی خود ہی ہٹا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments