سنہری گھڑی جس کے پاؤں کٹ گئے


رکو! ٹھہرو! ارے کوئی تو دیکھو۔ وہاں کیا ہو گیا آخر؟ آن کی آن میں پلیٹ فارم پر مچنے والے غل نے ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لی، جو ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے اس پٹری پر جھکے چلے جاتے تھے، جہاں ابھی پل بھر میں ایک حادثہ رونما ہو چکا تھا۔

لگتا ہے کوئی ٹرین تلے آ گیا۔ چچ چچ! افسوس! جانے کون مائی کا لعل تھا۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہوا اپنی جان لینے کا ! جتنے منہ اتنی باتیں۔ بینچ پر بیٹھی خوبصورت آنکھوں والی خاتون نے اپنے ساتھ بیٹھی ننھی بچی کو خود سے چمٹاتے ہوئے، ہراساں نظروں سے وردی میں ملبوس اپنے شوہر کو دیکھا جو اسٹیشن پر ہونے والی اس ہلچل پر بھاگا چلا گیا تھا۔

سرحد کی حفاظت کرتے ایک فوجی کی زندگی امن کے سکون سے جنگ کی غارت گری تک ہر قسم کے خدشات اور وسوسوں میں گھری رہتی ہے۔ اسے کبھی بھی برپا ہو جانے والی ایسی ناگہانی آفت کے لیے باقاعدہ تربیت سے تیار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ عام آدمی، جن کے اوسان ہر سانحے پر خطا ہوئے جاتے ہیں، وہ ایسی قوت اور برداشت سے محروم دکھائی دیتے ہیں جن کی کثرت ان فوجیوں میں خاص طور پر پیدا کی جاتی ہے۔ حادثے کی نوعیت جانتے ہی خاتون کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو گئے اور وہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھنے لگی۔ تبھی اسے دور ہجوم سے وردی میں ملبوس شوہر آتا دکھائی دیا، وہ اضطراری کیفیت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔

پڑوسی ملک سے حالات میں در آنے والی کشیدگی، ہمہ وقت بجنے والے جنگی سائرن، فضا میں پرواز کرتے جنگی طیاروں اور کسی بھی وقت برپا ہونے والی ہولناک جنگ کے بادل اپنے ارد گرد منڈلاتے دیکھ کر کئی سمجھ دار لوگوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ انھیں جس قدر جلد ہو سکے اس شہر آفت سے کہیں دور نکل کر جائے امان ڈھونڈ لینی چاہیے۔ مگر جو خود سرحد کی حفاظت پہ مامور ہوں وہ بھلا کہاں جائیں؟ ماحول پہ طاری ہمہ وقتی مایوسی نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ لوگ خود کشی جیسے سانحے پر بھی محض بڑبڑانے پر اکتفا کیے ہوئے تھے۔

نوجوان آتی ٹرین کی آواز سنتے ہی بھاگتا چلا آیا اور آتے ہی عجلت میں اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا لیا، پھر آنسوؤں سے لبریز مسکراہٹ لیے اسے خود سے بھینچتے ہوئے محض اتنا ہی کہہ پایا: دیکھنا جلد واپسی ہوگی! وہاں جا کر بھول تو نہیں جاؤ گی نا۔ اس نے بچی کا گل سہلایا۔ بچی اس کے گلے میں بانہیں ڈالے ہمک ہمک کر رونے لگی۔ ماں کو بیٹی کے ساتھ چپکے چپکے روتا دیکھ کر وہ ملتجی انداز میں بولا: سنو! رابطے میں رہنا اور ننھی کا بہت خیال رکھنا۔ خاتون نے ہاتھ میں پکڑے رومال سے ناک رگڑتے ہوئے، ڈبڈبائی الوداعی اپنے شوہر پر ڈالی اور اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا۔

وداع کا کوئی بھی منظر ہو اس میں شامل اداسی کے رنگ ہمیشہ شفاف آنسوؤں سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اسٹیشن پر یوں بلک بلک کر رونے والے وہ فقط تین نفوس نہ تھے، ان کے جیسے کتنے ہی بے بس اور بھی تھے جو ارفع نظریات کی تسکین کی خاطر اپنے پیاروں کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیے بہت دور بھیج رہے تھے، یہ جانتے بوجھتے کہ دوبارہ ملنے کا اختیار اب خود ان کے اپنے ہاتھ میں بھی نہ تھا۔

ٹرین آہستہ آہستہ کھسکنے لگی تو نوجوان نے بچی کو زبردستی خود سے دور کرتے ہوئے ماں کی بانہوں میں تھما دیا اور اس مختصر سے سامان کو جلدی سے ٹرین کے اندر دھکیلا جسے وہ عجلت میں سمیٹ پائے تھے۔ واپسی کی متزلزل اور غیر متعین تاریخ تک اپنے گھر، شہر اور پیاروں کو چھوڑ جانا کیسا اذیت ناک ہے، اس لمحے کے بوجھ اور کرب سے وہ اسی لمحے آشنا ہوئے تھے۔ قربتوں کے لا مختتم سلسلے یوں ایک مقام پر محدود ہوجائیں گے یہ تو انھوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ سسکتی ہچکیوں اور گھٹی گھٹی رونے کی مدھم آوازوں سے ملا یہ ایسا الوداعی منظر تھا جس نے اسٹیشن کے ماحول کو بوجھل کر ڈالا تھا۔

نوجوان نے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں کو تھامنے کی غرض سے کلائی پر بندھی اس گھڑی پر نظر دوڑائی جو ابھی چند ماہ قبل ہی اس کی شریک حیات نے اسے سالگرہ کے تحفے میں دی تھی: ”امید ہے تم لوگ جلد یہاں سے بہت دور نکل جاؤ گے۔ “ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں جلد بہت دور ہو جانے کی دعا دی۔ ٹرین کے بھاری پہیے جس وقت سرکنا شروع ہوئے تو ان کے بوجھ کو اس نے اپنے دل پر محسوس کیا۔

نوجوان کا دل اس منظر میں قید ہو گیا جب ہوا میں خداحافظ کے لیے ہلتے ہوئے نسوانی ہاتھ کے ساتھ، ایک ننھی سی کلائی دور تک اس کی جانب لپکتی رہی۔ وہ تب تک گال پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ انھیں تکتا رہا، جب تک کہ ٹرین آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔

شکستہ دلی اور جھکے کندھوں سے اس نے اپنے قدم الٹے پھیرے، بوٹ جو پہلے ہی بہت بھاری تھے اب من من وزنی ہو گئے۔ واپسی کے طول پکڑتے سفر سے لوٹتے ہوئے اس نے کلائی سے گھڑی اتاری اور اس کی سوئیوں کو دل میں ٹھہرے اسی ایک جدائی کے لمحے پہ روک ڈالا۔ وہ نڈھال لوٹا تو فوری حاضری کا حکم نامہ اس کا منتظر تھا۔

ایک ایسی جنگ کا ایندھن بننے کے لیے، خود کو پیش کرنا جو کسی ملک کے ذاتی مفادات کے حصول، جنگ کے عالمی کاروبار کی ترویج یا کسی سپر پاور کی محض اپنی طاقت کے فیل بد مست کی نمائش کے لیے دانستہ برپا کی جا رہی ہو، انتہائی تکلیف دہ فعل ہے۔ اس نے خود کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے جانے پر آمادہ کیا۔ اپنی زندگی کے دو خوبصورت چہروں کو نظروں سے تقریباً جھٹلاتے ہوئے اس نے اپنی بندوق اٹھائی اور خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔

وہ دن اس کی زندگی کے سب سے مشکل دن تھے، جب آسمان پر گرجتے برستے جنگی طیاروں، ہمہ وقت گونجتے سائرنوں، بار بار دھاڑتی توپوں اور دھاتی آگ اگلتی سنسناتی گولیوں نے ان سب کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ خون اور بارود کے ساتھ موت کی بو بھی چہار جانب پھیلی ہوئی تھی۔ آخری دم تک لڑتے رہنے کے سکھائے گئے جذباتی اسباق اپنے پیاروں کے تصور سے بھولنے لگتے تھے۔ پھر وطن کو ماں جیسے جذباتی رشتے کے پہناوے میں لپیٹ کر بچانے کی استدعا کی جاتی، تو ان سب کی آنکھیں اپنی ماؤں کے ذکر سے دھندلا جاتیں، ہمت ایک بار پھر جمع ہوجاتی اور جوش انھیں مرنے مارنے تک لے آتا۔

اس رات جب دشمن کی دندناتی توپ نے ان کے مورچے کا تاک کر نشانہ لیا اور ایک آتشیں گولہ ان کی سمت داغا تو اپنی پلٹون میں بچنے والا وہ واحد فوجی تھا، جس کی ٹانگیں بری طرح زخمی ہو چکی تھیں۔ خون، دھوئیں اور گرد کی تہوں میں اٹے اس کے جسم کو ، کون کب گھسیٹ کر اس مورچہ نما خندق سے لایا، اسے علم نہ تھا۔ اگر آگاہی تھی تو یہ کہ اب وہ اپنی کٹی ٹانگوں کے ساتھ، دیگران زخمی فوجیوں کی طرح ہسپتال کے بستر پر تھا جو اپنے اعضاء جنگ میں بھینٹ کر چکے تھے۔ غصہ، تکلیف اور بے بسی کے کرب نے اس کے حواس سلب کر لیے تھے۔ وہ پہلی بار دھاڑیں مار مار کے رویا تھا۔

ناگہانی سے کبھی بھی نبرد آزما ہو جانے اور ہمیشہ ڈٹے رہنے والے رٹائے گئے اسباق اس کے حافظے سے محو ہو چکے تھے، اگر کوئی چیز باقی تھی تو وہ وقت کی سرعت سے سرکتی رفتار تھی جس نے لمحوں سے شروع ہونے والی جنگ کو دنوں، مہینوں اور سالوں پر محیط کر ڈالا تھا۔ اپنے پیاروں کی خبروں کو ترستے اس جیسے کئی وردی پوشوں سے یہ ہسپتال بھرا ہوا تھا، اس دوران اگر کوئی چیز تسلسل سے جاری تھی، تو وہ جنگ تھی، جس کے فریقین اس وقت تک لڑنے پر آمادہ تھے، جب تک کہ ان کے پاس انسانی جانوں کی قیمتی متاع موجود تھی۔

ایک ناکارہ فوجی کی طرح جو اب کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو پائے گا، اسے ان اعزازت کی یقین دہانی کرائی گئی، جو کئی مرتبوں کا نعم البدل تو ہو سکتے تھے لیکن ان دو قدموں کا نہیں جو گنتی کے دنوں میں اپنے پیاروں کی جانب والہانہ دوڑے چلے جاتے تھے۔ وہ پیارے، جن کی آواز سے لے کر خیر خیریت تک کو ترستے اب ایک وقت ہو چلا تھا، بیرونی دنیا سے کٹ جانے کے سبب ان کا شمار بیک وقت زندوں اور مردوں دونوں میں ہو چلا تھا۔ کتنی بار اس نے چاہا تھا کہ وقت کا کوئی پھیر اس زور سے الٹا گھومے کہ امن کا وہ دور واپس آ جائے، جس میں سکون اور خوشیوں کا ایک روشن ہالہ اس کے گرد ہوا کرتا تھا۔ جنگ کی اس بھیانک تصویر نے اس جیسے کئی حساس دلوں کو یہ بات باور کرا دی تھی کہ جنگ کے حقیقی معنی صرف الم اور تباہی ہیں۔

اس شام جب جنگ کے مہین وقفوں میں کھنڈر بنے شہر کی ایک نسبتاً محفوظ بینک کی عمارت میں، وہیل چئیر پر بیٹھے، اس نے غروب ہوتے سورج کو دیکھا، تو اس کا دل بھی یہ سوچ کر ڈوب گیا کہ آج اس ننھے وجود کا جنم دن ہے جس کی میٹھی مسکان اس کی مہینوں کی تھکان پہ بھاری تھی، جانے اب وہ ننھے ہاتھ کتنے بڑے ہو چکے ہوں گے، اس نے انگلیوں کے پوروں پر گزرے سالوں کو گننے کی سعی کی۔ پھر کانپتے ہاتھوں سے جیب سے وہ گھڑی نکالی جس کا وقت اس نے دل میں ٹھہرے کسی بھاری پل کی زد میں روک ڈالا تھا۔

آنسوؤں سے دھندلائی آنکھوں میں وہ حسین کلائی اب بھی تھی، لیکن وقت کی ٹھہری سوئیاں اسے باوجود کوشش کے دکھائی نہ دیں۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسوؤں کے طوفان کو سمیٹا اور چمکتی سنہری گھڑی کے ڈائل کو تکتا رہا۔ ان گنت خوبصورت پل اس کی آنکھوں میں ستاروں کی مانند چمک کر ماند پڑنے لگے۔

ایک پر امن دن کے انتظار میں، اذیت بھری راتیں کاٹنے کی مشقت نے اس کے اعصاب کو شل کر ڈالا تھا۔ بے اختیاری کے ایک لمحے میں اس نے گھڑی کو چابی دیتے ہوئے، وقت کے ارتکاز کو ختم کر ڈالا۔ سالوں سے رکی گھڑی مدھم ٹک ٹک کی آواز سے دوبارہ چلنا شروع ہوئی۔ انہماک سے ان سنہری سوئیوں کو تکتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ گھڑی میں کچھ خرابی واقع ہو گئی ہے، سوئیاں آگے چلنے کی بجائے الٹا گھوم رہی ہیں۔ گھڑی کو کئی بار الٹ پلٹ کر ٹھیک کرنے کے باوجود خرابی بدستور قائم رہی۔

ایک یادگار تحفے کے یوں خراب ہو جانے پر اس کا دل مزید دکھی ہو گیا۔ وہ اپنے غم میں ابھی اور غلطاں رہتا کہ اچانک اسے رات کی تاریکی میں پو پھٹنے کا شائبہ ہوا۔ کیا میری بینائی بھی اب میرا ساتھ چھوڑ دے گی۔ اس نے دونوں ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو ملا۔ لیکن منظر کو بدستور دیکھتے ہوئے، اس سوچ نے اسے مزید افسردہ کر دیا کہ اب ساتھ چھوڑنے کی اگلی باری اس کی آنکھوں کی ہے۔

دکھ اور افسردگی کو طبیعت پہ سوار کیے اس نے اپنی وہیل چئیر کے پہیے گھمائے اور خود کو گھسیٹ کر بستر پہ ڈالا۔ اپنے ارد گرد پھیلی سفید دودھیا روشنی نے اس کی آنکھوں کو وزنی کر ڈالا اور وہ ایسی نیند میں گم ہو گیا، جو ایک تھکن زدہ مسافر کو ، ایک طویل مسافت کے اختتام پر نہایت ٹوٹ کر آتی ہے۔

اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کے دباؤ سے اس کی آنکھ کھلی، وہ شاید بہت دیر تک سوتا رہا تھا۔ پر اب کی بار وہ اپنے بستر پر نہیں، کرسی پر تھا۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے ساتھی کو دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کی اور وہیل چئیر کے پہیے گھمائے، لیکن ایک عام کرسی پر وہیل چئیر کے پہیے تھے ہی کہاں؟ وہ ہڑ بڑا گیا۔ جنگ میں کھویا ساتھی اس کے سامنے اپنی مکمل وردی میں ملبوس کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس نے پھرتی سے اٹھنے کی کوشش کی۔ اپنی دونوں ٹانگوں کو موجود پا کر اس کی حیرت سوا ہو گئی۔ وہ پھرتی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہوا اور ساتھی کے گلے لگ کر یوں بلک بلک کر رویا کہ جیسے یہ اس کا کوئی نیا جنم ہو۔

ایکا ایکی جانے اس کے من میں کیا آئی وہ کسی ہرن کی طرح چوکڑی بھرتا ہوا بھاگا۔ کھنڈر زدہ شہر اپنی رونقوں میں ویسا ہی دائم اور آباد تھا جیسا کہ جنگ سے قبل تھا، اس کے قدموں کا رخ وہی مکان تھا، جو اپنے مکینوں سے گھر ہوا کرتا تھا۔ جس کے دروازے پر لگائے گئے تالے کو اپنی جگہ نہ پا کر اس نے عجلت میں اسے دھکیلنے کی کوشش کی مگر یوں معلوم ہوا کہ جیسے وہ اندر سے بند ہے۔ کسی خوش گمانی کے تحت اس نے دروازے پر لگی گھنٹی کو بے تابی سے بار بار بجایا۔

گھر کے کاموں میں مصروف بیوی نے دروازہ کھول کر حیرت اور خوشی سے منہ کھول کر اسے یوں ہی دیکھا جیسے وہ ہمیشہ اس کے اچانک آنے پر مبہوت ہو جایا کرتی تھی۔ اندر سے بھاگنے والے دو ننھے ننھے قدم اس کی جانب لپکے تھے۔ وقت کے اس گھماؤ پر وہ ایسا نڈھال ہوا کہ اپنی بیوی اور بیٹی سے ملتے ہوئے بلک بلک کر رو دیا۔ دونوں حیرت سے اسے تکتی رہیں۔ وہ دن اس کی زندگی کا سب سے قیمتی دن تھا، جس کے ہر ایک لمحے کو بار بار کے شکر سے اس نے ہزار بار جیا تھا۔ اپنے پیاروں کی رفاقت میں دنیا کیسی دھنک رنگ ہو گئی تھی۔

اس نے خود کو بارہا یقین دلایا کہ زندگی کے وہ خوفناک پل اس کی زندگی کا سب سے بھیانک خواب تھے۔ ایک ایسا خواب جس کے تصور سے ہی اسے جھر جھری آتی تھی۔ اس شب اپنے پیاروں کے ہمراہ گھر کے آرام دہ بستر پر لیٹتے ہوئے اس نے فقط ایک ہی دعا کی تھی کہ کہیں اگر وقت کا یہ الٹا پھیر بھی اس کا خواب ہو تو وہ اس خواب میں ہمیشہ کے لیے قید ہو جائے۔

اگلے دن ایک کٹے بازو والے فوجی نے، بلند اشکبار آواز میں، کئی فوجیوں کو یہ کہہ کر جمع کر لیا کہ اس کا پیروں سے معذور ساتھی، اب بستر سے کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔ ایک مختصر، سادہ مگر اعلیٰ فوجی اعزاز کے ساتھ، اس ٹانگوں سے محروم فوجی کو سپرد خاک کرتے ہوئے، اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ وہ سنہری گھڑی احترام سے اس کے سینے پر رکھ دی جائے، جسے دن کے بیشتر اوقات میں وہ جیب سے نکال کر آنکھوں سے لگا لیا کرتا تھا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments