عطاالرحمٰن صاحب: جو لکھا تپاک جاں سے لکھا


اپریل 2018 ء میں جناب فرخ سہیل گوئندی اسلام آباد تشریف لائے تو ایک نشست میں دوران گفتگو اچانک کہنے لگے یار! آپ نئی بات میں کالم لکھا کریں، میں عطاالرحمٰن صاحب سے بات کرتا ہوں۔ راقم اس سے پہلے ایک اور مؤقر اخبار میں کالم لکھتا تو تھا مگر باقاعدہ نہیں۔ گوئندی صاحب خود بھی اس زمانے میں نئی بات میں باقاعدہ کالم لکھ رہے تھے۔ دو روز بعد انہوں نے عطا صاحب کا رابطہ نمبر بھیج دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ آپ انھیں فون کر لیں، میں نے بات کر لی ہے۔ میں نے نمبر ملایا اور عطا صاحب سے بات کی۔ انہوں نے بڑی محبت سے بات بھی کی اور حوصلہ افزائی بھی۔ میں نے چند روز بعد اپنا پہلا کالم انھیں ارسال کر دیا۔ ان کی وسعت قلبی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میرا پہلا کالم ہی اس سیاسی جماعت کے خلاف تھا جس سے عطا الرحمٰن صاحب کی دلی وابستگی تھی، مگر انہوں نے وہ کالم بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے شائع کیا۔ کچھ عرصے بعد میرا لاہور جانا ہوا تو فون کر کے وقت لیا اور عرض کیا کہ ملاقات کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہوں، جواب میں وہی خلوص بھری آواز میں جواب دیا کہ ضرور آئیے۔ یہ عطا الرحمٰن صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ ایک انتہائی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ چہرے ہی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ قلم اور کتاب سے رشتہ دوچار برس کی بات نہیں نصف صدی سے بھی زائد کا قصہ ہے۔

ملاقات میں ذکر ہوا پروفیسر خالد ہمایوں صاحب کا جن سے راقم کی نیاز مندی کو دو دہائیوں سے زائد ہوچکے ہیں۔ خالد ہمایوں صاحب بھی کتابوں کے اتنے عاشق ہیں کہ اگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ گھر کا سودا لینے نکلے اور کوئی اچھی کتاب نظر آ گئی تو سودا سلف کو چھوڑ کر کتاب خرید لے آئیں گے تو حیرت نہیں ہوگی۔ عطا الرحمٰن صاحب نے اسی طرح کا ایک واقعہ سنایا کہ پرانی کتابوں کے ایک بیوپاری نے خالد صاحب کو نہایت پرانی اور نایاب کتابوں کے بارے میں مطلع کیا، مگر قیمت بھی بہت زیادہ بتائی، خالد صاحب قیمت کیا دیکھتے سودا کر آئے اور غالباً پوری تنخواہ ہی دے آئے اور کتابیں لے آئے۔ واقعے کا اگلا حصہ اور بھی دلچسپ کہ کسی انتہائی ضرورت کے لیے جب رقم کی ضرورت پڑی تو وہ ہی کتابیں اسی کتب فروش کو فروخت بھی کر آئے۔

اسی طرح ایک کہنہ مشق کالم نگار کے کالموں کا مجموعہ شائع ہوا تو عطا صاحب نے اس پر کالم لکھا۔ کالم میں ازراہ تفنن یہ جملہ بھی لکھ دیا کہ میری اہلیہ کہتی ہیں کہ کالم تو ان کے ہوتے ہیں آپ کے کہاں۔ میں نے اس کالم پر اور خاص کر اس مذکورہ جملے پر عطا صاحب کو کہا کہ سر جس معزز شخصیت کی کتاب پر آپ نے تبصرہ کیا ہے ان کے کالموں میں اردو تو بہت عمدہ ہوتی ہے، مگر سیاسی تجزیہ اور گہرائی ذرا کم ہوتی ہے، آپ کے کالموں میں دونوں پہلو اوج ثریا پر ہوتے ہیں۔

میری اس بات کی تائید عطا صاحب کے پڑھنے والے بھی ضرور کریں گے۔ ایک اور کالم نگار جو ویسے تو ایک عرصہ سے کوچہ صحافت میں ہیں، مگر نئی بات میں کچھ عرصہ قبل ہی کالم لکھنا شروع کیا ہے۔ ایک ملاقات میں، میں نے سوال کیا کہ سر لگتا ہے آپ ان کے کالم لکھتے ہیں اور شائع ان صاحب کے نام سے ہوتے ہیں۔ جواب میں ہنستے ہوئے کہنے لگے، یار! ان کے سامنے نہ بول دینا وہ پہلوانی وجود کے مالک ہیں۔ پھر فرمایا کہ نہیں ایسی بات نہیں وہ خود ہی لکھتے ہیں، اور اچھا لکھتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز جب اڈیالہ جیل میں قید تھے تو انھیں ایک مقررہ وقت میں ملاقاتوں کی اجازت بھی تھی۔ عطا الرحمٰن صاحب بھی کسی ایسے ہی وقت میں وہاں میاں نواز شریف سے ملنے گئے تھے اور غالباً دیگر نامور کالم نگار اور صحافی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میں نے اپنی ایک ملاقات میں پوچھا کہ سر میاں نواز شریف حوصلے میں ہیں؟ جواب میں فرمایا کہ انھیں اس حال میں پہنچانے والے بھی بہت حوصلے میں ہیں۔

ان سے گفتگو ہوتی تو تعریفی کی بجائے تنقیدی گفتگو سننا پسند کرتے۔ اپنے اخبار کی دستیابی اور لوگوں میں شناسائی کے بارے میں پوچھتے۔ وہ مجھے ”مسلم صاحب“ کہہ کر مخاطب کرتے۔ خاص طور پر کہتے کہ مسلم صاحب آپ سیاست کی بجائے ادبی اور تاریخی کالم لکھا کریں۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم پر لکھے گئے میرے دو کالموں کی ہمیشہ تعریف کرتے اور اسی طرح کے کالم لکھنے کی ہدایت بھی کرتے۔ میں کبھی کالم نہ بھیج پاتا تو خصوصی طور پر پوچھتے۔

عطا صاحب کے رفیق خاص گرامی قدر زاہد رفیق صاحب مجھے ان کی علالت کے بارے میں اطلاع کر دیا کرتے تھے۔ زاہد رفیق صاحب اکثر بتاتے کہ عطا الرحمٰن صاحب طالب علم کے بارے میں محبت اور اخلاص کے جذبات رکھتے تھے۔ انتقال سے چند روز قبل بھی جب وہ اسپتال میں زیر علاج تھے تو فون پر بات ہوئی، فرمانے لگے کہ مکمل تو بہتر نہیں ہوں مگر قدرے بہتر ہوں۔ میں نے اپنی ملاقاتوں میں ہمیشہ ان کے چہرے پر نفس مطمئنہ والی کیفیت دیکھی۔

ان کی وفات ایک فرد کی نہیں ایک مدبر، دانشور اور بے لاگ تجزیہ نگار کی موت ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اپنی تحریروں کی شکل میں وہ صحافت اور سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔ جس سے مستفید ہونے والے ان کے درجات کی بلندی کے لیے ہمیشہ دعا گو رہیں گے۔ عطا الرحمٰن صاحب کے ادارے اور لواحقین سے گزارش ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو یک جا کر کے کتابی شکل میں شائع کریں۔

عطا الرحمٰن صاحب کے کالم عام طور پر طویل ہوتے تھے، اردو کے محاورے اور تراکیب کا استعمال اور پھر سیاسی تجزیے جس میں وہ کیا خوبصورت تنقید کرتے کہ ”تم قتل کر و ہو کہ کرامات کرو ہو“ والا معاملہ ہوتا۔ اپنے نظریات اور خیالات کا کھل کر اظہار کرتے مگر کسی کشور کشائی، حرص کرم کی تمنا اور خوف خمیازہ کے بغیر۔ احمد فرازؔ کے یہ اشعار یقیناً ان پر صادق آتے ہیں کہ :

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زباں تیر کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments