گیزر کی مصیبت


گیزر کا لفظی معنی تو ”قدرتی گرم چشمہ“ ہے لیکن آج کے دور میں اس کا مطلب وہی ہے جو ہمارے آپ کے غسل خانوں کے باہر لگا ہوا ہے۔ یہ وہ واحد نعمت ہے جو سخت سردی کے موسم میں ہم ایسوں کو گرم پانی کے فوارے کے نیچے کھڑے ہو کر امارت اور لگژری کا احساس مہیا کرتی ہے۔ گیزر کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ روایتی جو گاؤں میں نائیوں کے حمام میں نصب ہوتے ہیں جس میں صبح چار بجے موٹے موٹے گٹکے اور لکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں اور حجام اس سے سارا دن پیسے کماتا ہے۔

پھر بجلی سے چلنے والے اور زیادہ مقبول قدرتی گیس سے چلنے والے۔ ان میں سے کچھ آٹومیٹک ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر مسئلہ یہ ہے کہ آٹومیٹک گیزر نصب ہونے کے فوراً بعد آٹومیٹیکلی مینوئل موڈ پر شفٹ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ رات کو گیس چلی جاتی ہے تو صبح آپ کو بقلم خود نیم وا آنکھوں سے جاگ کر گیزر دوبارہ آن کرنا پڑتا ہے۔

ایک نئی قسم انسٹنٹ گیزر کی بھی ہے۔ جو بھی لگواتا ہے وہ دوسرے کو مشورہ دیتا ہے کہ یہ نہ لگوانا ایک دو سیزن بعد خراب ہوجاتا ہے۔

ہم نے تین سال قبل گیزر لگوایا تو سولہ ہزار میں آیا۔ دکاندار ایماندار تھا۔ اس نے تین سال کی گارنٹی دی تھی۔ اکتیس دسمبر 2021 کو تین سال پورے ہوئے اور یکم جنوری کی صبح سویرے گیزر لیک ہو گیا۔ اب کیا کریں؟

مستری کو بلایا۔ ڈاکٹر صاحب اس کا پیندا فارغ ہو گیا ہے زنگ کی وجہ سے۔ ویلڈ کرنا پڑے گا۔ آٹھ ہزار کا خرچہ ہے۔

”پھر تو مسئلہ نہیں کرے گا؟“
ہم نے بے چینی سے پوچھا۔

”دیکھیں جی پیندا تو پھر مسئلہ نہیں کرے گا اس کی گارنٹی ہے۔ ہاں البتہ کسی اور جگہ سے ٹینکی لیک ہو سکتی ہے“

مطلب؟ پھر کیا کریں؟

”پھر یوں کریں کہ ٹینکی ڈلوا لیں پوری۔ سولہ ہزار خرچہ ہے اور گارنٹی پانچ سال کی دوں گا۔ یہ کمپنیاں ساری لوکل ہیں پتلی چادر لگاتی ہیں۔ ہم یہ موٹی چادر لگاتے ہیں۔ آپ ہم سے گیزر بنوا لیتے پہلے ہی۔ دس پندرہ سال خراب ہونے کا نام نہیں لیتا۔“

نہیں بھائی سولہ کا تو پورا یہ گیزر لیا تھا۔ میں نیا ہی نہ لے آؤں؟
”نیا لائیں گے تو وہ بھی سال دو سال بعد لیک کرے گا۔ یہ کمپنیاں ساری لوکل۔ پتلی چادر۔“
اچھا بھائی کوئی اور حل؟
”بس ڈاکٹر صاحب فی الحال تو یہی دو حل ہیں۔ تیسرا ایک اور بھی ہے۔“
وہ کیا؟
” اس کو کباڑیے کو بیچ دیں لوہا مہنگا ہوا پڑا ہے۔ پندرہ سو دو ہزار میں نکل جائے گا۔“
ہیں؟ کیا؟ پھر اس کے بعد ؟

”پھر کیا؟ اس کے بعد مجھ سے بنوائیں سولہ ہزار میں پانچ سال کی گارنٹی دوں گا۔ یہ کمپنیاں ساری لوکل پتلی چادر۔ ۔“

اچھا اچھا۔ ٹھیک ہو گیا۔ بہت بہتر۔
”پھر؟ لڑکا بھیجوں گیزر اتارنے؟“
نہیں ابھی رہنے دو بھائی۔

دو ایک خیر خواہوں سے مشورہ لیا انہوں نے کہا کوئی اچھی ساکھ والی کمپنی گیزر نہیں بنا رہی۔ سب لوکل کمپنیاں پتلی چادر۔ ۔

پھر کیا کریں؟

پائلٹ خدا بخش صاحب بولے بھائی میں تو روسی ساختہ راڈ لے آیا ہوں۔ اسی سے بالٹی گرم کرتا ہوں۔ واللہ پانی ابال دیتا ہے۔

چاچا اختر سیکیورٹی گارڈ فرمانے لگے بات یہ ہے کہ اس گیزر مشین سے ہماری کبھی نہیں بنی۔ پہلے تین چار منٹ تو گرم اور ٹھنڈے پانی کی ٹونٹیاں ایڈجسٹ کرتے سارا ننگا بدن سردی سے کانپ جاتا ہے۔ پھر ذرا جسم کے مطابق گرم پانی گرنا شروع ہوا، ادھر ہم نے صابن لگانی شروع کی اور جیسے ہی سر فوارے کے نیچے کیا

آئے آئےئےئےئےئےئے ائے۔ آآآاآا اوہ او او

یک لخت ابلتا ہوا پانی سر پر گرا اور بھیجا ایسے کھولنے لگا جیسے ”موت کا منظر مع مرنے کے بعد“ میں لکھا ہویا اے۔

چاچا کیا لکھا ہویا اے؟
ہم نے حیرت سے پوچھا۔

” جہنم میں سب سے کم عذاب والے کو جب آگ کی جوتیاں پہنائی جاویں گی تو اس کا بھیجا ابلنا شروع کردے گا۔“

اوہ اچھا اچھا۔ ٹھیک۔
اگے سنو ناں جی۔
جی چاچا سناؤ۔

پھر پانچ منٹ تک نلکہ سیٹ کرتے رہیں اور سردی سے برا حال ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ٹنکی میں کسی نے برف کا کٹورا ڈال دیا ہے۔ میں گیزر کے خلاف ہوں اور چولہے پر پانی گرم کر لیتا ہوں۔

خیر دوستو!

اس کباڑ کو او ایل ایکس پر لگایا۔ ساتھ میں لکھا کہ لیک ہے۔ اور قیمت لگائی پینسٹھ سو۔ گاہک آیا پچپن سو میں لے گیا۔ ہم نے شکر کیا کہ جان چھوٹی۔

اب سمجھ آیا کہ روس گرم پانیوں تک کیوں پہنچنا چاہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments