نروٹھا آشناؤں میں


عقیل عباس جعفری کسی دوست کے ہاں تھے، انہوں نے زاہد کاظمی کو ملنے کے لیے وہیں آنے کو کہا۔ میں فارغ تھا۔ زاہد کے کہنے پہ میں بھی ساتھ چلا گیا۔

کھانے کے لیے ڈائننگ ہال میں گئے۔ میں نے ایک سرے کی پہلی کرسی پہ بیٹھ کر کے اپنی عینک اور ماسک میز پر دھرے اور ہاتھ دھونے کو دست شوئی کی جانب بڑھا تو شکیل عادل زادہ ہاتھ دھو کے نکل رہے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب ( عرفان صدیقی صاحب کے بھائی، جنہیں میں غلطی سے شاہد ملک سمجھ کر بہت تپاک سے ملا تھا اور وہ بھی اسی تپاک سے بغل گیر ہوئے تھے ) کو سر میز بیٹھنے کو کہا اور خود جا کر کے اس کرسی پہ بیٹھ گئے جس پہ میں نے نشست کی تھی۔ میں پلٹا اور اپنی عینک اور ماسک ان کی مخالف سمت کی کرسی کے سامنے رکھ دیے اور ہاتھ دھو کر آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔

ڈونگے میں مجھے لگا جیسے پسندے ہوں جو مجھے بہت پسند ہیں کیونکہ میری گورکھپوری تایا زاد اور بھابی بھی، اللہ انہیں بلند مقام عطا کرے، بہت اچھے بنایا کرتی تھیں۔

مگر وہ تو نہاری کے بوٹ تھے جو مشکل سے میں نے نکالا اس ٹکڑے میں گوشت کے ریشے کم اور پٹھے کے آخر کا لجلجہ حصہ زیادہ تھا۔ کچھ پہلے ہی طویل القامت، خوش بدن اور خوش خلق میزبان، تب تک جن کا نام میں ان سے پوچھ چکا تھا، شکیل صاحب، شاہد صدیقی سے کہہ چکے تھے کہ نہاری نکالنے کا ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے، لائیے میں آپ کو نکال کے دیتا ہوں، شکیل عادل زادہ اپنے ہم نام کے کہے کی تائید کر چکے تھے۔

میزبان خدمت کرتے ہوئے ہاتھ میں ایک پلیٹ لیے کھڑے تھے، میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی مدد درکار ہے، میں اس حصہ کو اپنی تھالی سے نکالنا چاہتا ہوں۔ وہ بڑھے، ہاتھ میں لی تھالی رکھی اور میرے سامنے دھرے کانٹے سے وہ نکال کے اس میں رکھتے ہوئے بولے کہ اس حصے کو نروٹھا بولتے ہیں اور ہم دلی والے اسے کھانے کے لیے مرتے ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے تائید کی۔ میری بغل میں بیٹھے آرٹس کونسل کراچی کے شکیل خان نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے ہم دلی والوں کے ساتھ زیادتی کر دی۔ میں نے معذرت کی۔ اس اثنا میں میزبان شکیل ویسا ہی ایک ٹکڑا نکال کر میری تھالی میں رکھ چکے تھے۔ میں شکیل خان سے معذرت کرتے ہوئے کہہ چکا تھا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔

اس دوران میزبان شکیل ایک بڑے ہاٹ پاٹ سے کچھ نکالتے ہوئے بولے۔ ہم دلی والوں میں جو نروٹھا اور کتیب کی قدر نہ جانے، اسے ہم مہذب خیال نہیں کرتے۔ وار گہرا تھا مگر میں نے بدکے بغیر کہا کہ میری تھالی میں پھر سے یہی لجلجہ Tendon ہے۔ انہوں نے مجھے ہاٹ پاٹ سے کچھ اور نکال کے دیا جس کی شکل سمجھ نہ آئی تو میں بولا کہ اپ مجھے کیا عجیب چیزیں دے رہے ہیں تو فرمایا کہ اپ عجیب نکال دیجے باقی کھا لیجے۔ میرے Tendon کہنے پہ شکیل خان بول اٹھے تھے کہ اب آپ سائنس میں پناہ نہ لیں باقی زندگی کون سی سائنس کے مطابق گزر رہی ہے۔

یوں نروٹھا کی مبینہ توہین کے سبب میں مذاق کا نشانہ رہا۔ میں نے معذرت بھی کی کہ لاعلمی میں آپ لوگوں کے مرغوب نروٹھا کی توہین کر دی مگر مذاق جاری رہا اور میں بھی مذاق میں جواب دیتا رہا۔

کسی نے کہا کہ آئندہ ڈاکٹر صاحب کو مدعو نہیں کریں گے۔ کسی نے کہا کہ نہیں بلائیں گے ضرور مگر کھانے کو بھنڈی اور گوبھی، کیونکہ میں میزبان کی دی عجیب چیز ملائی بوٹی کو دیکھ کے کہہ چکا تھا کہ اچھا گوبھی ہے جس پہ ساتھ بیٹھے شکیل خان نے کہا تھا کہ شکیل صاحب کے ہاں بھنڈی، گوبھی وغیرہ ممنوعہ اشیاء ہیں۔

جب کھانے کے بعد جو میں نروٹھا کے سبب اچھی طرح کھا بھی نہ سکا تھا، ڈرائنگ روم میں گئے تو میں نے کہا کہ مین نے تو اردو میں نروٹھا لفظ کہیں نہیں پڑھا تو ایک جانب بیٹھے میزبان نے موبائل پہ لغت نکال کے کہا یہ دیکھ لیجے۔

لکھا تھا، نروٹھا: سخت، اکڑا ہوا، درشت۔ اس مبینہ برہنگی پر میرا قہقہہ چھوٹ گیا۔ بولے نیچے پڑھیں تو دوسرا معانی لکھا تھا کہ گوشت کے ساتھ جڑا قدرے سخت اور سفیدی مائل حصہ اور آخری معانی تھا، بدشکل، بدصورت، منحوس اس پہ بھی میں ہنسا کیا۔

تو شکیل خان بولے ڈاکٹر صاحب نے درحقیقت نروٹھا کو اسی معانی میں لے لیا، جو واقعی درست بات تھی۔

تو آپ میں سے کون کون ہے جس نے لفظ نروٹھا سنا یا پڑھا ہو، کون کون ہے جو اسے کھانا پسند کرتا ہو؟ میں تو جب یہ لکھ رہا تھا تو آٹو کریکٹ نروٹھا کو بار بار نیوٹرون لکھے جا رہا تھا۔

اور ہاں میزبان خاص مہمانوں کے سامنے شفاف پیالوں میں رکھی میرے لیے گھناؤنی، جسے میں ایک بار دیکھ کے دیکھنے سے گریز کرتا رہا، سی شے رکھ کے کہتے تھے اور یہ نلی، ل پہ شد لگا کے۔ یعنی ہڈی میں کا نیم پختہ گودا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments