سیلف ہارم


اس نے مجھے بتایا کہ ’کافی دنوں سے ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ اور اسے نیند نہیں آتی اور دل چاہتا ہے کہ خود کو زخم لگائے‘ وہ میرا پہلا مریض تھا۔ میں نے اس کی ہسٹری لی اور نتائج چونکا دینے والے تھے۔ الف حال ہی میں کالج میں آیا تھا۔ سارے جسم پر چاقو، چھریوں کی مدد سے نشانات تھے جو غالباً پرانے تھے اور اب داغ بن چکے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ کسی سے بات چیت کا دل نہیں چاہتا، اور یوں اکیلا مہینوں، بغیر بولے خاموش رہتا ہے۔

میرے استفسار پر کہنے لگا کے لوگوں سے اسے عجیب چڑ ہوتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ایک نوجوان جو بہترین تعلیمی قابلیت کی وجہ سے طبی کالج میں آیا ڈپریشن کا شکار تھا۔ میں اس کے علاوہ بھی ایک تعداد کو جانتا ہوں جنہیں میں نے کبھی گارڈن، کبھی دیواروں کی اوٹ میں چہرے چھپائے سسکتے دیکھا ہے۔ حیرت کی بات ہے تمام تر آسائش ہونے کے باوجود نو جوانوں میں مالیخولیا کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے۔

میں نے جب اسے خود کو زخم دینے اسے منع کیا تو کہنے لگا اسے مزا آتا ہے۔ عجیب اذیت پسندی پھیل رہی ہے گردوپیش میں، میں نے بالکل ایسے زخم کئی شناساؤں کی کلائیوں پر دیکھے ہیں۔ ایسے افراد گرم استری، نیل کٹر یا کوئی بھی تیز دھار چیز سے جسم کے مختلف حصوں کو کرید کر یا کاٹ کر حظ اٹھاتے ہیں۔ میرے استفسار پر وہ کہنے لگا کہ خود کو اذیت دے کر اسے خود پر رحم آتا ہے اور وہ سرشاری محسوس کرتا ہے۔ ایسی ہی ایک دوست نے بتایا کہ وہ ربڑ بینڈ سے بازو پر ایسے وار کرتا رہتا ہے اور گول گول نشان دونوں کلائیوں پر واضح تھے۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے بال نوچتے ہیں یا چہرے کی واضح ہڈیوں پر ضرب لگاتے ہیں، کچھ دیوانے تو خود کو زد و کوب بھی کرتے ہیں، مثلاً گال لال کر لیتے ہیں۔ خدا جانے اس کی وجہ کیا ہے۔ آج کل ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی خلفشار اور الجھنوں کا شکار ہے۔

ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی، وہ بھی ڈپریشن کا مریض نکلا، اس بار مجھے وہ زخم بھی دکھائے جو محدب عدسے کی مدد سے لگائے گئے تھے۔ خود کو جلانا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے اور آبلے بن جاتے ہیں، جو کئی کئی ماہ مندمل نہیں ہوتے۔ ڈپریشن کے مریضوں کی بھی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ اب چاہے آپ ایسے مبالغہ جانے یا حقیقت ہر شخص ہی اوائل عمر خاص کر نو جوانی میں ایسے تجربات سے گزرتا ہے۔ کئی صاحبان تو نیند کی گولیوں سے بھی شغل فرماتے ہیں۔

اگر بروقت رہنمائی نہ ملے تو نتائج افسوس ناک بھی ہی سکتے ہیں۔ ایسی انزائٹی کی وجہ کیا ہے، بیجا موبائل کا استعمال، بے مقصدیت یا حد سے زیادہ آسائشیں؟ آپ کے گھر جو نوجوان ہیں، ان کی جذباتی زندگی اتھل پتھل کا شکار ہے مگر رہنمائی ندارد، والدین کیا، ادارہ معاشرہ ہر کوئی دباؤ ڈالتا ہے۔ تو ایک ناتجربہ کار ذہن سے آپ کیا امید رکھتے ہیں۔ زندگی پر بیجا پابندیاں آپ کی اگلی نسل کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیں گی۔

اور یہ امر حق ہے، وگرنہ یہ خاموشیاں تبھی ٹوٹیں گی جب آپ کا لختہ جگر چوتھی منزل سے گرے گا، یا لال لال لہو اور بہترین دماغ چھت سے چپک جائے گا اور پستول کی ’دھائیں‘ کانوں میں رس گھول جائے گی۔ اکثر سنتے ہیں، لائق اور اعلیٰ پائے کے فلسفی لوگوں نے خود کشی کا راستہ اپنایا، کیا وہ اس زندگی کی لا یعنیت دریافت کر گئے تھے اور انہوں نے اس مخمصے کا خود ہی فیصلہ کر دیا۔ یقیناً سنسنی خیز خبر بنتی ہوگی اور نیوز چینلز پر لمبے لمبے پروگرام بھی ہوتے ہوں گے ۔ کچھ افراد بزدل بھی ہوتے ہیں، وہ ایسی عادات اپنا لیتے ہیں جن کا انجام بربادی ٹھہرتی ہے مثلاً نشہ آور ادویات کا استعمال، سگریٹ اور بعض دفعہ تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے۔

ایسے میں ذہنی الجھن تو حل معاشرہ کیا بتاتا ہے ملاحظہ ہوں، نماز پڑھا کرو، اپنی زندگی میں مقصد لاؤ، کتب بینی شروع کرو، ورزش کیا کرو، سو جاؤ، باتیں کرو وغیرہ۔ نہیں چاہیٔں بھئی، تمہاری پھرتیاں، معاف کردو۔ فی الحال تو اس کا کوئی قابل عمل حل نہیں نکلا۔ مگر آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر، چاہے دفتر جا کر ماتحتوں پر گرج برس لیں، یا بیوی بچوں کو لتاڑیں، فیصلہ آپ کا ہے۔ اگر کسی پہ زور نہیں چلتا تو آ جائیں، کلب میں، یہاں سب سینٹی کرنے کی اجازت ہے۔ یہ ہے تمہاری اپنی دھرتی، جس میں تمہارا فیصلہ چلے گا، چاہے تو کاغذ کالے کرو، جا جنون نبھاتے پھرو، ہمیں قبول ہو، کیوں کہ ہم ایک فیملی ہیں، سنکی لوگوں کی فیملی۔ یہاں ہر سنکی دوسرے کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ پھر چاہے لوح و قلم اپنے ہاتھ میں لیلو اور چشمہ حیات ہی گل کردو، مرضی آخر تمہاری ہے۔

نوٹ: خود سے کوئی بھی رائے مت قائم کریں، یہ ایک تعلیمی مضمون ہے۔

عثمان ارشد
Latest posts by عثمان ارشد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments