کامیاب پاکستان پروگرام: حکومت کا کئی سو ارب روپے کے بلاسود قرضے دینے کا پروگرام کیا ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


فری لانسنگ، کام، دفتر
فائل فوٹو
وزیر اعظم عمران خان نے کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت ملک میں 407 ارب روپے مالیت کے بلا سود قرضے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے ملک کا غریب طبقہ معاشی طور پر خود کفیل ہو گا۔

یہ قرضے چھوٹے کاروبار، مکانوں کی تعمیر کی خاطر، اور کسانوں کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے کامیاب پاکستان پروگرام سے پہلے کامیاب جوان پروگرام کے تحت بھی نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضے دینے کی سکیم کا اجرا کیا جا چکا ہے۔

حکومت کی جانب سے اس پروگرام کو ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر اقدام قرار دیا جا رہا ہے اور یہ ان خاندانوں کو دیا جائے گا جو پاکستان میں احساس پروگرام کے ڈیٹابیس میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پروگرام محدود پیمانے پر ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں جاری ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے تحت ڈھائی ارب روپے کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔

تاہم اب حکومت کی جانب سے اس پروگرام کو وسیع اور بڑے پیمانے پر شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کی تحت اب بلا سود قرضوں کی رقم 400 ارب سے زائد کر دی گئی ہے۔

کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت 400 ارب سے زائد بلاسود قرض دینے کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب حکومت نے ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کی ہے۔

حکومت کے ان اقدامات کو غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے سیاسی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا گیا ہے تاکہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔

حکومت کی جانب سے اس تاثر کو مسترد کیا گیا ہے کہ یہ اقدام کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

وزارت خزانہ کے تحت چلنے والے اس پروگرام پر وزارت کے ترجمان مزمل اسلم نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس پروگرام کا مقصد سیاسی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ابھی الیکشن 20 ماہ دور ہیں جبکہ اس پروگرام کا افتتاح نومبر 2021 میں ہو گیا تھا۔‘

کامیاب پاکستان پروگرام کیا ہے؟

پاکستان کی وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے اس نمائندے کو فراہم کی گئی تحریری معلومات کے مطابق اس پروگرام کا اجرا نومبر 2021 کو گیا تھا تاہم شروع میں یہ پروگرام محدود پیمانے پر تھا اور ملک کے کچھ حصوں میں ہی اس کے تحت بلاسود قرضے فراہم کیے جا رہے تھے۔

فراہم کردہ معلومات کے مطابق محدود پیمانے پر جاری اس پروگرام کے تحت ڈھائی ارب سے زائد کے قرضے فراہم کیے گئے جو پہلے چار مہینوں میں 15 ہزار افراد کو بلا سود قرض کی صورت میں دیے گئے۔

تاہم اب مارچ کے مہینے سے اس پروگرام میں بہت بڑے پیمانے پر توسیع کر دی گئی ہے اور اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔

توسیع شدہ پروگرام کے تحت اس مالی سال اور اگلے دو مالی سالوں کے اختتام تک 407 ارب روپے کے بلاسود قرضے پورے ملک میں فراہم کیے جائیں گے۔

حکومت کی جانب سے اگلے تین برسوں تک ہی نہیں بلکہ اگلے سالوں میں بھی ان قرضوں کی فراہمی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حکومتی دستاویزات کے مطابق مالی سال 26-2025 کے اختتام تک ایک ہزار ارب روپے کے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔

اس پروگرام کے تحت کامیاب کاروبار، کامیاب کسان اور کم لاگت کے مکانوں کی تعمیر کے لیے بلاسود قرض دیا جائے گا اور ان تمام زمروں کے تحت ایک خاندان کو ساڑھے 28 لاکھ تک قرضہ دیا جا سکے گا تاکہ ملک میں قرضوں کی مساوی تقسیم کو ممکن بنایا جا سکے۔

حکومتی دستاویزات کے مطابق اسی پروگرام کے تحت کامیاب اوورسیز پاکستانی منصوبہ بھی زیر غور ہے جو ان غریب پاکستانیوں کو دیے جائیں گے جو بیرون ملک ملازمت تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس سفری ویزے اور ان سے متعلقہ اخراجات کے لیے درکار رقم نہیں ہوتی۔

یہ اقدام ان پاکستانیوں کی مدد کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

پروگرام کے تحت بلاسود قرضے کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت قرضے حاصل کرنے کے لیے حکومت نے ایک پورٹل تیار کیا ہے اور اس میں مفت فون نمبر کے ذریعے قرض لینے کا کوئی بھی خواہش مند فرد یہ جان سکتا ہے کہ اسے یہ قرضہ مل سکتا ہے یا نہیں۔

ایک بار قرض لینے کا اہل ہونے کی تصدیق کے بعد اس پروگرام کے اردو اور انگریزی زبانوں میں فارم حکومت کے پورٹل پر موجود ہوں گے۔

درخواست کی منظوری کا وقت 30 دن رکھا گیا ہے۔ اس کی فیس 100 روپے ہے جس میں نادرا کی شناختی کارڈ تصدیق کی فیس بھی شامل ہے۔

چھوٹے کاروبار کے لیے اس سکیم کے تحت پانچ لاکھ کا قرض لیا جا سکتا ہے جبکہ کسان اس پروگرام کے تحت ساڑھے تین لاکھ تک کا قرض لے سکتا ہے۔ اسی طرح مکان کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ تک کے قرضے دیے جائیں گے۔

حکومت کتنا مالی بوجھ برداشت کرے گی؟

کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت دیے جانے والے قرضے ملک کے بینکوں سے عام افراد کو جاری کیے جائیں گے تاہم حکومت بینکوں کی جانب سے وصول کیے جانے والے شرح سود کو اپنی جیب سے سبسڈی کی صورت میں ادا کرے گی۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں پر اعتراض کر رکھا ہے تاہم اب حکومت اس پروگرام کے تحت بینکوں سے قرضے جاری کروائے گی اور اس پر سبسڈی اپنی جیب سے ادا کرے گی۔

وزارت خزانہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق حکومت 24-2023 کے مالی سال تک 56 ارب روپے کی سبسڈی ادا کرے گی جبکہ 26-2025 تک اس کی مالیت 168 ارب روپے ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ اس وقت ملک کو بلند بجٹ خسارے کا سامنا ہے اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈیوں کو اس کی ایک وجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر عالیہ خان نے اس سلسلے میں اس نمائندے کو بتایا کہ آئی ایم ایف نے ہاؤسنگ کے شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں پر اعتراض کیا ہے اور امکان ہے کہ کامیاب پاکستان پروگرام پر بھی یہ اعتراض آئے گا۔

بینکاری امور کے ماہر راشد مسعود عالم نے کہا کہ حکومت سبسڈی تو دے گی لیکن بلند بجٹ خسارے کی وجہ سے یہ کس حد ممکن ہو پائے گا۔

فیکٹری

یہ پروگرام کامیاب ہو گا؟

حکومت کی جانب سے کامیاب پاکستان پروگرام کے ذریعے غربت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے ذریعے ملک کے غریب طبقے کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

راشد مسعود عالم نے اس سلسلے میں بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام جیسے پروگرام پاکستان میں ماضی میں بھی مختلف صورتوں میں آتے رہے ہیں لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔

انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پیلی ٹیکسی سکیم کا اجرا کیا گیا تو پرویز مشرف دور میں غریبوں کو رکشے دینے کی سکیم کا اعلان کیا گیا لیکن ان سکیموں سے معاشرے کے غریب طبقے اوپر نہیں اٹھ سکے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی نوجوان کے لیے ’اپنا کاروبار‘ کرنا کتنا مشکل ہے؟

لاک ڈاؤن کے دوران کامیاب کاروبار کھولنے والے نوجوان گریجویٹس

مہنگی ڈگری کے بغیر بھی آن لائن کمائی ممکن!

گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمانے والے پاکستانی فری لانسرز

ڈاکٹر عالیہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ صرف پیسے دینے سے کوئی کاروبار شروع نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے شروع کرنے کے لیے پاکستان میں بہت سارے ایسے مسائل ہیں کہ جن کے حل کے بغیر کوئی بھی کاروبار پروان نہیں چڑھ سکتا۔

انھوں نے بتایا کہ یورپ میں بھی ایسے قرضے فراہم کیے جاتے ہیں لیکن انھوں نے اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے کہ کاروبار کے لیے قرضہ دینے سے پہلے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد نگرانی کی جاتی ہے کہ جن مقاصد کے لیے قرضہ دیا گیا ہے کیا وہ واقعی صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عالیہ نے کہا پاکستان میں ایسا کوئی نظام ابھی تک وجود میں نہیں آیا جس کی وجہ سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسی سکیمیں مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر رہتی ہیں۔

نقدی

کیا یہ پروگرام حکومت کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے؟

حکومت کی جانب سے یہ پروگرام اس وقت سامانے آیا ہے جب یہ اقتدار کے ساڑھے تین سال پورے کرنے کے بعد اب اپنی مدت کے خاتمے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ایک ایسے وقت میں اتنے بڑے پروگرام کو حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عالیہ خان نے کہا کہ ’پوری دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جب الیکشن سائیکل شروع ہوتا ہے تو حکومتیں ایسے اقدامات کر کے ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘

’پڑوسی ملک انڈیا میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں اس حکومت کی جانب سے یہ کام اس وقت ہوا ہے جب ملک کا مالی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسے اب رعایتی قرضوں پر سبسڈی بھی دینی پڑے گی جس کا مطلب ہے کہ یہ پروگرام ایک سیاسی مقصد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔‘

راشد مسعود نے بتایا کہ ’حکومت کے تازہ ترین اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ اب تمام اقدامات سیاسی نقطہ نظر سے لیے جا رہے ہیں۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں یہاں کم ہو گئی ہیں۔‘

’بجلی کی قیمت کم کر دی گئی جبکہ متعلقہ اداروں کو پتا نہیں کہ کیسے بجلی کو کم نرخوں پر بیچیں۔ اب کامیاب پاکستان پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments