یوم خواتین اور ان کے حقوق سے آگہی


یوں تو خواتین سے متعلق ہمیشہ ہی لکھا جاتا رہا ہے اور ان کے حقوق کے لئے ہمیشہ ہی ہر سطح پر آواز بلند کی جاتی رہی ہے لیکن ان کے موجودہ قوانین سے آگہی اور ان کا شعور بیدار کرنے کے لئے ان کو عام کرنا اور شعور اور آگہی کے ذریعے بہتری لانے کی اب اس معاشرے اور عالمی دنیا کو زیادہ ضرورت بھی ہے صرف 8 مارچ کو عورت مارچ کر کے کچھ ستم یافتہ خواتین کو منظر عام پر لا کر ان کی تذلیل میں اضافے کے علاوہ بھی اور کئی جہتوں اور کئی سطح پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جیسے کہ سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور معاشرتی حقوق2017 کی مردم شماری کے مطابق ہمارے ملک پاکستان میں خواتین کی آبادی 49 فیصد ہے یعنی نصف کے قریب تر اس لیے سب سے پہلے تو موجودہ قوانین سے آگہی حاصل کرنا اور پھر وقت ضرورت ان کا استعمال ممکن بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے اور اس معاملے میں این جی اوز کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی دنیا میں بالعموم اور ہمارے معاشرے میں بالخصوص این جی اوز نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لئے بلاشبہ بڑا کام بھی کیا ہے اور ان کی کاوشیں رنگ بھی لائی ہیں لیکن ابھی کچھ خاص تناؤ کی سی کیفیت نظر آ رہی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اب مو جودہ قوانین سے آگہی اور ان کے حصول کی جدوجہد کی جائے پاکستان کا قانون اس سلسلے میں کس حد تک خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے دیکھتے ہیں۔

آرٹیکل 3 میں ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرنے کا کہا گیا ہے ۔

یعنی ہم ہر سال عورت مارچ کے نام پر اپنے حقوق کی جو بات کرتے ہیں تو یہ حق تو ہمارے قانون میں ہمیں دیا گیا ہے اب ضرورت اس کے بآسانی حصول کی ہے۔

آرٹیکل 4 ہر فرد کو / ہر شہری کو بالا تفریق مرد و عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارنے کا حق دیتا ہے

اسی کے لئے ہماری ساری کی ساری کوششیں ہیں۔

25 کے تحت مساوات اور قانون کے مساوی تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور اسی کے تحت صرف جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔

اسی کی ہم ہر جگہ بات کرتے آئے ہیں اور ہماری خواہش بھی یہی ہے۔
آرٹیکل 25 ہی میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے۔

جو کہ ہماری حکومت اور ادارے گاہے بگاہے لیتے رہتے ہیں گرچہ وہ اقدامات مختصر ہوتے ہیں لیکن بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت بھی ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 26 اور 27 عوامی مقامات تک بآسانی خواتین کی رسائی اور سرکاری اور نجی شعبے میں ملازمت کی برابری فراہم کرتا ہے۔

اسی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت بھی ہے اور کئی ادارے اور این جی اوز اس سلسلے میں قابل ستائش کام بھی کر رہے ہیں۔

آرٹیکل 11 میں کے تحت انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ جسم فروشی پر بھی پابندی کی بات کی گئی ہے۔

یہ ہماری مذہبی، سماجی اور معاشرتی اقدار کا عکاس ہے اور بہترین اور تہذیب یافتہ معاشرے کی شناخت بھی ہے اسی سے ہماری بچوں کی تربیت کا عنصر بھی نمایاں ہو جا تا ہے

آرٹیکل 32 مین مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی کے لئے خصوصی انتظامات کرنے کا کہا گیا ہے۔

الحمدللہ اس سلسلے میں قانون سازی پر عمل درآمد بھی ہوتا نظر آ رہا ہے اور ہماری کئی خواتین نہ صرف مقامی بلکہ مقننہ میں بھی قانون سازی کے عمل میں سرگرمی سے حصہ لیتی نظر آ رہی ہیں۔

آرٹیکل 34 ریاست کو ہدایت کرتا ہے کہ خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں اور خاص طور پر سماجی سر گرمیوں میں میں حصہ لینے کے قابل بنانے کے لئے اقدامات کرے۔

آرٹیکل 35 ریا ست سے شادی، خاندان اور ماں اور بچے کے تحفظ کا تقاضا بھی کرتا ہے۔

آرٹیکل 37 ریاست کو پابند کرتا ہے کہ انسانی حالات کو محفوظ بنائے خاص طور پر خواتین کو ان کی جنس، عمر کے لئے نامناسب پیشوں میں ملازمت نہ دی جائے، دوران ملازمت زچگی کے فوائد کو یقینی بنایا جائے۔

یہ ہماری شاندار روایات کا عکاس بھی ہے کیونکہ ہم میں کئی ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے بچپن میں اپنی ماؤں کو ملازمت کرتے دیکھا اور گھر کی بھی تمام ذمہ داریاں ادا کرتے بھی یہی وہ انتہائی ضروری عمل ہے کہ جس کی وجہ سے عورت بیک وقت ایک ماں اور ذمہ دار ملا زم اپنی تمام گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر سکے کئی ایسے ادارے ہمارے ملک میں بھی اچھا کام کر رہے ہیں اور وہاں خواتین کو کئی بنیادی سہولیات حاصل بھی ہیں اور دوران زچگی ان کو طبی بنیادوں پر چھٹیاں بھی دی جاتی ہیں۔

آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 100 مقننہ میں خواتین کے لیے نشستوں کے مختص کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔

ان تمام قوانین پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان خواتین وہ تمام حقوق کی بات کی گئی ہے کہ جن ہمیں ضرورت ہے یہ بھر سماجی، معاشی، مذہبی اور معاشرتی محاذ پہ ہمیں درکار بھی ہیں۔ انہی قوانین کی بدولت ہم جدید دنیا کہ ان تمام اداروں کے باقاعدہ رکن بھی ہیں۔

یہاں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان قوانین کی موجودگی میں بھی خواتین کی حالت زار توجہ طلب ہے اور اس پر مزید کام کرنے کی یعنی ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں خواتین کی حیثیت مختلف طبقات اور احساسات کے تحت مختلف نظر آتی ہے یوں تو صنفی امتیازی سلوک ہمیشہ ہی ممالک اور خطوں کی قید سے آزاد ہر جگہ نظر آتا ہے ہر خطہ زمین پر مختلف صورتوں میں رہا ہے اور نظر بھی آتا ہے صنفی دقیانوسی تصورات کی کوئی سرحد نہیں اور عالمی سطح پر وہ ہمارے بچوں اور بچیوں کے کمرہ جماعت تک پھیل چکا ہے اور کسی حد تک بچوں کی تعلیم اور بڑی حد تک ان کی اخلاقیات کو متاثر کر رہا ہے۔ سب سے پہلے بات کی جائے بنیا دی ضرورت تعلیم کی ہم اب بھی یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں 129 ملین سے زائد اب تک اسکولوں سے دور ہیں جس میں 32 ملین صرف

پرائمری اسکول کی عمر اور 36 ملین صرف لوئر مڈل سیکنڈری تعلیم حاصل کر پاتی ہیں اور پھر یہ بھی ایک اور تلخ حقیقت ہے کہ اب تک دنیا کے صرف 49 فیصد کے پرائمری تعلیم میں صنفی مساوات قائم کر پائے ہیں جبکہ ثانوی سطح پر وسیع ہوتا جا رہا ہے 42 فیصد ممالک نے نچلی ثانوی سطح پر کامیابی حاصل کی ہے 100 فیصد تک نہ پہنچنے کی وجوہات میں بڑی وجہ غربت، کم عمری میں بچیوں کی شادی، صنفی تشدد شامل ہے جبکہ ہمارا ملک ابھی سطح سے بہت دور ہے اور یہاں بھی دنیا بھر کی طرح صنفی تفاوت برقرار ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سب کے سد باب کے لئے کوششیں مشترکہ ہوں اور عوامی سطح پر ہوں اب کچھ ذکر ان اقدامات کا کرنا ضروری ہے جو مشترکہ طور پر حکومتیں اور ملک مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کر ہے ہیں

عوامی سطح پر بچیوں کی تعلیم میں سر مایہ کاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس سے کئی طرح کو کے مسائل کو حل کیا جا سکے گا جیسے کہ غربت، کم عمری کی شادی، آبادی میں بے تحاشا اضافہ، بچوں کی شرح اموات میں، زچگی کی شرح اموات میں کمی وغیرہ ہم سب یہ جانتے ہیں صنفی مساوی تعلیم زندگی کی مہارتوں کی نشوونما کو فروغ دیتی ہے جیسے کہ خود نظم و ضبط، گفت و شنید اور تنقیدی سوچ۔ صنفی مساوی تعلیم بچوں اور بچیوں دونوں کے لئے ضروری ہے اور ان کے ایام تعلیم کو آسان اور زندگی برتنے اور خاص طور پر انسانوں اور مختلف جنس کے ساتھ درست برتاؤ سکھاتی ہے اور یہ خوشحالی لانے میں مددگار بھی ہے سیکھنے کے عمل ہم صنفی مساوات کو ترجیح دے کر اس فرق کو ختم کر سکتے ہیں کہ بچیوں کی تعلیم کو بچوں کی تعلیم ہی طرح اہمیت دی جانی چاہیے اس سلسلے میں اقوام عالم کو اسکولوں اور حکومتوں کو درست تشخیصی ڈیٹا تیار کرنا اور استعمال کرنا ہو گا اور اس میں اساتذہ کی تربیت اور پیشہ ورانہ ادائیگی صنفی مساوات کو فروغ دے گی۔

پائیدار ترقی کے لئے صنفی مساوات اہم ہوتی ہے ایک سروے کے مطابق خواتین کی زیادہ آمدنی بچوں کی تعلیم اور خاندانی صحت میں بہت اہم اور زیادہ حصہ بھی ڈالتی ہیں جس سے کسی قوم کی مجموعی اقتصادی ترقی ہوتی ہے اعداد و شمار کے مطابق مز دوری کے کام میں خواتین کا حصہ 42 فیصد سے بڑھ کر 46 فیصد ہو گیا ہے جبکہ ان کا کردار فیصلہ سازی میں بہت کم ہے خواتین کو بطور لیڈر یا رہنما کے بھی لایا جانا ضروری ہے خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ اہم عمل ترقی پذیر ممالک میں بھی شروع ہو گیا ہے اور کا فی حوصلہ افزا نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں

کیونکہ عالمی سطح پر جیسے جیسے صنفی مساوات فروغ پا رہا ہے ناقابل یقین مگر خوشگوار احساسات بھی جنم لے رہے ہیں اور ترقی یافتہ ملک میں تو کہیں کہیں خواتین ایوان اقتدار مین بھی بھر پور اور طاقتور شراکت دار بھی ثابت ہو رہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے مثبت خیالات چاہے وہ کسی بھی شعبے، اور معاملات سے ہوں انھیں سنا جائے اور مثبت انداز میں آگے بڑھایا جائے ان پر اعتماد کیا جائے مثبت نتائج آنے پر ان کی کھل کر حوصلہ افزائی کی جائے۔ بلا معاوضہ خواتین سے مزدوری کے خلاف ہر سطح پر نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ کارروائی بھی کی جائے پیشہ ورانہ اور ذاتی سطح پر خواتین کی رہنمائی کی جائے اور اس رواج کو فروغ دیا جائے غیر مساوی تنخواہوں کی حوصلہ شکنی کی جائے تا کہ پائیدار ترقی کا اقوام عالم کا خواب بھی پورا ہو سکے ان تمام کوششوں میں اقوام عالم اور نجی اداروں کی سرمایہ کاری کی ہر سطح پر پذیرائی کی جانی چاہیے۔

2050 تمام بچوں بشمول لڑکیوں کو مفت، مساوی اور معیاری پرائمری اور سیکنڈری تعلیم مکمل کر سکیں اس کے علاوہ لڑکے اور لڑکیوں کو معیاری ابتدائی تعلیم اور نشوونما اور دیکھ بھال ممکن بنائی جائے اقوام نے اقوام متحدہ کے تحت ہی 2050 تک پیشہ ورانہ تعلیم تربیت تک رسائی کو آسان بنانا بشمول معذور افراد کی شرکت کے بہت اہم اقدامات کو حقیقت میں عمل درآمد کرانا ہما را بھی مشن ہونا چاہیے اس سلسلے میں یونیسیف ہر اس ملک کے ساتھ کام کر رہا ہے کہ جو خود اس شعبے میں کام کرنا چاہتا ہے کیونکہ مما لک کی طرح یہ یونیسیف کی بھی ترجیح ہے اور تعلیم کے فروغ میں اقوام عالم تیار ہیں ہر طرح کی معاونت کرنے کو خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کو اپنے بہتر مستقبل کے لئے اس خاص کام کرنا ہو گا ہمارے یہاں بھی اس شعبے میں کام ہو رہا ہے لیکن اب بھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے لیکن پھر بارش کی چند بوندوں نے روشنی کی کرن ضرور روشن کی ہے ہمیں اس 8 مارچ یعنی یوم خواتین کو ان تمام اچھے کاموں کو اجاگر کر کہ مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی نہ کی مظلومیت کی داستان غم سنا کر اپنے مظلوم اور کمزور، کم تر ہونے کا رونا روئیں کیونکہ ہم خواتین کمزور نہیں تھے نہیں ہیں اور نہ کبھی ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments