ایک لیڈی ڈاکٹر کے دن بھر کی عیاشی، اسی کی زبانی


گزشتہ ہفتے میرے ایک دوست کی بہو ہسپتال میں ڈیلیوری کے لئے داخل ہوئی۔ میں خود تو گائناکالوجسٹ نہیں لیکن میری بیگم تخلیق کے اس عمل میں برابر کی شریک ہے۔ میرے دوست ہر دو گھنٹے بعد فون کرتے کہ آپریشن کیوں نہیں شروع کرتے۔ تنگ آ کر میں نے فون اپنی بیگم کو پکڑا دیا۔ بیگم نے بتایا کہ یہ نئی ماں پہلے بچے کی پیدائش کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پہلی ڈیلیوری عموماً ایک سسپنس زدہ، مشکلات سے بھرپور اور لمحہ بہ لمحہ زچہ اور بچہ دونوں کی مختلف کیفیات سے گزرنے کا تجربہ ہوتا ہے۔

جہاں ایک نو عمر لڑکی تخلیق کے درد سے گزر رہی ہوتی ہے وہاں اس کی گائناکالوجسٹ بھی ہر چند منٹ کے بعد ”میدان جنگ“ کا تجزیہ کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ گائنی کی پروفیسر اکیس گریڈ کی افسر ہوتی ہے۔ آپ کی بیٹیوں اور بہوؤں کی خدمت پر مامور جونئیر ڈاکٹر بھی اپنے خاندانوں کی لاڈلیاں ہوتی ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا جب ان کی سہیلیاں بیوٹیشنوں کے نخرے اٹھاتی تھیں یا پارلروں کے باہر ”پاوری ہو رہی ہے“ کی سیلفیاں بناتی تھیں، یہ ڈاکٹرز رات بھر کتابیں گھول کے پی رہی ہوتی تھیں۔

یہ جو ابھی آپ کی بہو کو پیشاب کی نالی لگا کر گئی ہے، یہ پانچ بھائیوں کی اکیلی بہن تھی اور شادی شدہ تھی۔ ابھی بھی اپنا چار ماہ کا بچہ کسی کے حوالے کر کے رات کی ڈیوٹی کے لئے آئی ہے۔ تاہم وہ دن بھر بھی اپنی ڈیوٹی کر کے صرف گھر تک جاکر اپنے بچے کو دودھ پلانے گئی تھی۔ جی نہیں، اسے دن بھر کہیں بھی آرام کا موقع نہیں ملا۔ اور آپ کی بہو سے فارغ ہو کر صرف کمر سیدھی کرنے ایک صوفے پر بے حال ہو کر خود اپنی کمر کو دبا رہی تھی۔  ان کے پاؤں موٹے نہیں، تین دن سے کھڑے ہو کر ان کے پاؤں سوج چکے ہیں۔

رات کے تین بجے (ڈرائیور کی غیر موجودگی میں ) میں اپنی بیگم کو ایمرجنسی اٹینڈ کروانے لے جاتا رہا ہوں۔ کئی بار تو کار پارکنگ میں گاڑی کی سیٹ پر تھوڑی بہت نیند پوری کر چکا ہوں۔

جہاں میرے دوست مصر تھے کہ فوری آپریشن کیوں نہیں کرتے، وہاں میری بیگم کو معلوم تھا کہ اگر پہلی زچگی میں آپریشن (سی سیکشن) کرنا پڑا تو زیادہ امکان ہو گا کہ اس کے بعد کی زچگیاں بھی آپریشن ہی پر منتج ہوں۔ اگر نارمل طریقے سے پیدائش نہ ہو تو آپریشن کے ذریعے بچہ دانی کو چاقو سے کھولنا پڑتا ہے۔ لاکھ اچھے طریقے سے سیا جائے، بچہ دانی کا وہ حصہ ہمیشہ کے لئے کمزور رہتا ہے۔ اگر دوسری زچگی طویل ہو جائے تو زچہ کے زور ڈالنے سے رحم (بچہ دانی) پھٹ سکتی ہے اور اس میں موت واقع ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔

اب آپ ذرا ایک پیشہ ورانہ مہارت سے آراستہ اتنی بڑی افسر کے شش و پنج کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دو جانیں داؤ پر لگی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار تو دونوں میں سے ایک ہی کو بچایا جا سکتا ہے۔ چند ہفتے قبل میری بیگم نے کرونا سے فوت شدہ ایک زچہ کا آئی سی یو میں آپریشن کر کے زندہ بچہ اقارب کے حوالے کیا تھا۔ کیا آپ میں سے کوئی شخص بھی اس ذہنی اذیت کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ ایک خاتون جب زچگی کے عمل سے گزرتی ہے تو اس کے ساتھ اس کا قریبی خاندان ہی پریشان ہوتا ہے۔ بلکہ مائیکے کو ماں اور سسرال کو بچے کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ اب اس ذہنی پریشانی کو دس سے ضرب دیں تو کچھ اندازہ ہو گا کہ گائناکالوجسٹ روزانہ کس شش و پنج، اذیت، مختلف فیصلوں کے درمیان ایک مناسب رستہ نکالنے کے مراحل سے سرخرو ہو کر نکلتی ہے اور یا کوئی ایک یا دونوں جانیں ہارتی ہے۔

تخلیق کے عمل سے گزرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ بلکہ تخلیق کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی بہو امتحان کی سولی پر لٹک جاتی ہے۔ ابھی ہنی مون ختم نہیں ہوتا کہ مستفسرانہ نظروں میں پوچھنا شروع ہوجاتا ہے۔ گویا شادی کے دن ہی لیبارٹری کے ٹسٹ ٹیوب میں تخم ڈالتے ہی اگلے دن تن آور درخت کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ خوش قسمتی سے بہو پہلے چند ماہ میں حاملہ ہو جائے تو وہ طنزیہ نگاہیں اب بے چاری کی الٹیوں، درد، اور پورے بدن کی سوجن کا مذاق اڑانا شروع کر دیتی ہیں۔ ”ہائے اللہ! ہم نے تو خیر سے دس بچے جنے ہیں، مجال ہے جو گھر والوں کو علم تک ہوا ہو۔“ بہو نے اس حالت میں کچن سنبھالنا ہے۔ لانڈری اسی کی ذمہ داری اور صفائی اسی کا فرض جو ٹھہرا۔ اور ہاں اس حالت میں بھی ”مجازی خدا“ کسی وجہ سے ناراض نہ ہو جائے جس میں ساس اور سسر کی خدمت بھی شامل ہے۔

ایک حمل کے ٹھہرنے سے لے کر زچگی اور اس کے بعد بچے کو اپنے دودھ سے سریاب کرانے تک یہ عمل اتنا پیچیدہ ہے کہ ہر ہر لمحے پر ڈاکٹر سے معائنہ ضروری ہوتا ہے۔ حمل میں ذیابیطس کا رسک بڑھ جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کا باقاعدہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایک نئی مخلوق جو ماں کے پیٹ کے اندر پل رہی ہوتی ہے، اس کا ایک ایک خلیہ ماں سے توانائی، طاقت اور زندگی نچوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ رحم میں پانی کا کم و زیادہ ہونا، کمر درد، پیشاب کے مسائل سے لے کر پورے بدن کی سوجن یا خارش ایک مسلسل عارضے سے کم نہیں ہوتیں۔

پاکستان میں ہر سال پچاس لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یوں ہر سال تقریباً چودہ ہزار مائیں اور دو لاکھ سے اوپر بچے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں جبکہ مناسب اور باقاعدہ میڈیکل چیک اپ ان میں سے اکثریت کی جان بچا سکتا ہے۔

آج کل کی نئی حاملہ خواتین کو زچگی کے درد سے بچاؤ کے آپریشن کے علاوہ بھی رستے دستیاب ہیں۔ ان میں سے ایک ایپی ڈیورل انیستھیزیا ہے۔ لیکن زچگی کی طوالت، بچے کی دلکی دھڑکن اور دوسرے کئی عوامل پر اچھے سے اچھے ڈاکٹر کا بھی مکمل اختیار نہیں چل سکتا۔ ایسی ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ اچھے خاصے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مسئلہ بن جاتی ہیں۔ زچگی کی ایک پیچیدگی خون کا نہ رکنا ہوتا ہے۔ صرف یہ ایک پیچیدگی پورے ہسپتال کی دوڑیں لگوا دیتی ہے۔

بسا اوقات بیسیوں خون کے تھیلے چڑھا کر بھی مریض کا خون نہیں رکتا۔ حتیٰ کہ ہر ہر جگہ (منہ، ناک، پیشاب وغیرہ سے ) خون فوارے کی طرح جاری رہتا ہے۔ حمل کے چوتھے ماہ کے بعد حاملہ خواتین کے بلڈ پریشر اور چھوٹے پیشاب کے معائنے کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب دو سو میں سے ایک حاملہ کو ایک لیمپشیا (eclampsia) کے دورے پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کئی گائناکالوجسٹ آپریشن کا چوائس دوسروں سے کہیں پہلے دے دیتی ہیں کیونکہ اس میں وقت نہیں لگتا۔ نارمل ڈیلیوری کا طریقہ انتظار مانگتا ہے جو کبھی ڈاکٹر بے صبری کے مارے نہیں کر سکتے اور اب تو کئی بار نئی حاملہ نوجوان خواتین درد کے ڈر سے مصر ہوتی ہیں کہ بس جلدی سے آپریشن کروا دیں۔ لیکن ان کو سی سیکشن کے ذریعے صرف کمائی کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ بس ان کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے کہ نہ صرف حاملہ کی ماں کو قائل کرسکے بلکہ شوہر کے غصے کو بھی پی لیا کرے۔

ہمارے میڈیا نے شرمناک حد تک سنسنی پھیلانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ ”رکشے میں بچے کی پیدائش، ہسپتال کی سیڑھیوں پر بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ“ جیسی غیر پیشہ ورانہ سرخیاں ان کے ایک دن کی شہرت کا سبب تو بن سکتی ہیں لیکن اخبار کا مجموعی تاثر کچھ اچھا نہیں پڑتا۔ کیا انہوں نے تحقیق کی تھی کہ گزشتہ نو ماہ میں حاملہ کتنی مرتبہ ڈاکٹر سے معائنہ کروا چکی ہیں۔ یہ زچگی کوئی اچانک کا بم دھماکہ تو نہیں ہوتا۔ اس سے کئی کئی دن قبل اس کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ گھر والے بوجوہ حاملہ کو ہسپتال پہنچانے میں غفلت سے کام لیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی قصور وار وہی گائناکالوجسٹ ہی ٹھہرتی ہے۔ (ویسے ڈیلیوری کیسز کرنے والی سپیشلسٹ کو آبسٹیٹریشن obstetrician کہتے ہیں لیکن میں نے غلط العام اصطلاح استعمال کی ہے کہ لوگ گائناکالوجسٹ کو ہی جانتے ہیں )

مہذب ممالک میں نارمل ڈیلیوری ڈاکٹر کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہاں مکمل تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہوتی ہیں جو اس مکمل قدرتی عمل میں صرف مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم ان کو اپنے حدود معلوم ہوتی ہیں اور کسی معمولی پیچیدگی کے امکان کی صورت میں ڈاکٹر کو بلانے میں قطعاً ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ ایک ایسا مکمل نظام، میں نے گجرات میں عائشہ بشیر اور متعلقہ ہسپتالوں میں دیکھا ہے جس کی کامیابی کا سارا سہرا ڈاکٹر اعجاز بشیر کے سر سجتا ہے۔

تو جناب اگلے دن میرے دوست مٹھائی اور دوسرے تحائف لے گھر آئے۔ وہی لوگ جو آپریشن میں جلدی کروا رہے تھے، نارمل ڈیلیوری پر پھولے نہ سما رہے تھے۔ اگر خدانخواستہ زچہ یا بچہ کو کچھ بی ہوجاتا تو ہمارے تعلقات میں دراڑ پڑنے میں کچھ مانع نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments