سیاسی منظر نامہ یا سیاسی بلبلہ


پاکستان کی سیاست میں مصنوعی طریقے سے پیدا کی گئی سیاسی ہلچل کافی زور و شور سے جاری ہے۔ اپوزیشن پارٹیز کافی عرصے سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بار بار ناکام کوشش کر رہی ہے۔ میں چند ہفتے پہلے لکھے کالم میں لکھ چکی ہوں۔ کہ عمران خان یا ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہی ہے۔ اس کا ثبوت پچھلے کئی دنوں سے اپوزیشن کے بدلتے بیانات اور ڈیڈ لائن اس چیز کا اعتراف ہے کہ ان کے اندر وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی سکت نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی سابقہ حکومتوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حال بھی دیکھیں تو اکثریت ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ناکام ہی ہوئی ہیں۔

سب سیاسی پارٹیاں سیاست کر رہی ہیں۔ اگر ہم نواز شریف صاحب یا ان کی پارٹی کے بیانات دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ عمران خان کے سامنے اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لئے کبھی چوہدریوں کے در پر جاتے ہیں۔ کبھی الطاف حسین سے رابطہ کرتے ہیں تو کبھی جہانگیر ترین اور علیم خان سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سابقہ صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو تو انھوں نے ہر فیصلے کرنے کی پوری پوری اجازت دے رکھی ہے۔

لیکن نواز شریف صاحب اور ان کی صاحبزادی نے تو جیسے اپنے چھوٹے بھائی، چچا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف صاحب کے ہر فیصلے کے خلاف جانے کی قسم کھا رکھی ہے۔

شہباز شریف کہیں کہ ہمیں پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت سے جان چھڑانے کی کوشش کر سکیں۔ تو مریم نواز صاحبہ اور ان کے والد بیان داغ دیتے ہیں ہمیں فریش الیکشن پر جانا چاہیے۔ دراصل نواز شریف صاحب کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو پارٹی کا پورا کنٹرول ان کے ہاتھوں سے نکل کر شہباز شریف کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور پھر وہ سیاست کا محور کہلانے کے نعرے سے بھی جائیں گے۔ لہذا پہلے تو یہ اپنی خاندانی سیاسی وراثت کے فیصلے کر لیں پھر اپنے اپ کو کنگ میکر ہونے کا دعوی کریں۔

” میرے نزدیک اگر وزیراعظم عمران خان پانچ سال مکمل کر گئے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان نون لیگ کو پنجاب میں ہی ہو گا“

دوسری طرف پیپلز پارٹی عمران خان کو ہٹانے کی جلدی میں نہیں ہے تاکہ اگلے انتخابات تک ان کے پاس اپنی گیم سیٹ کرنے کا وقت ہو اور سندھ حکومت کے سورسز کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ اگلے الیکشن میں اچھی ڈیل کی جا سکے۔ اور یہی متضاد رائے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا ہو کر عمران خان کے خلاف کی گئی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لئے کافی ہے۔

ادھر گجرات کے چوہدریوں نے شہباز شریف کے عشائیے کو مکمل طور پر اگنور کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ شریفوں کے لئے بہت بڑا سیاسی سیٹ بیک تھا۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی مارچ پر ہے۔ زرداری صاحب اپنے مضبوط گڑھ سندھ میں واپس آنے سے پہلے بلاول کی سر پر کچھ مزید سیاسی پنکھ لگانے کی کوشش میں ہیں۔ پنجاب میں مارچ داخل ہوتے ہی افضل چن کی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پی پی پی میں واپسی بہرحال آصف علی زرداری کی کامیابی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی بلاول نے اپنے پرانے جیالوں کو پارٹی میں واپسی پر خوش آمدید کا بیان دیا ہے مطلب انھوں نے سب کے لئے اپنی پارٹی کے دروازے کھول دیے ہیں۔

یہاں بہت ساری انگلیاں اپوزیشن کی طرف بھی اٹھتی ہیں۔ نواز شریف صاحب جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کا الم اٹھایا تھا کہ ہم کسی سے ڈیل نہیں کریں گے۔ ہم اپنے لئے نہیں عوام کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں ہم ووٹ کو عزت دلوانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ اور لوٹوں کی سیاست کو ریجیکٹ کرتے ہیں۔ ہم حکومتوں کو گرانے کے خلاف ہیں ہم اصولوں کی سیاست کر رہے ہیں وغیرہ

اب ان سب بلند و بالا سیاسی نعروں کا کیا بنا؟

آج ہم پنجاب کے اندر پیدا شدہ نئی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ کل رات سے اطلاعات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ لگا پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت چوبیس گھنٹوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان کے سب صحافی ایک ہی خبر دے رہے تھے بزدار تو اب گیا۔ اور اس چیز کا کریڈٹ اپوزیشن پارٹیز لینے کی کوشش بھی کر رہی تھیں۔ ماحول کافی گرم تھا۔

تو ہم نے بھی اپنے سورسز، باخبر ذرائع سے رابطہ کیا تو پتہ چلا یہ چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ ہے۔ اور سب اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کریں گے اور سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر چلے جایں گے۔

ان ساری انفارمیشن کے بعد صحافیوں کے مخالف رائے رکھتے ہوئے ٹویٹ کر دیا کہ پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی۔

ایک طرف جہاں پنجاب حکومت گرانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اسی وقت ایک بریکنگ نیوز آتی ہے۔ کہ پاکستان کے آرمی چیف جرنل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی ون آن ون ملاقات ہوئی ہے۔

اس کے بعد تو ایسا محسوس ہوا جیسے چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔ سیاسی دھند ایک بار پھر غائب ہو گئی سب کچھ پھر سے صاف صاف دکھائی دینے لگا۔

اور وہی ہوا جب علیم خان کی میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات کی اس میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ آج ہم سب دوست جہانگیر ترین کے گھر ان کی طبعیت کا پوچھنے اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم مشکل کی اس گھڑی میں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن پارٹی کو پنجاب میں مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بہتر پرفارم کر سکیں اور بہتر لوگوں کو سامنے لائیں اور ان کی خدمت اور تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جیسے کہہ رہے ہوں اے کپتان ہماری طرف بھی نظر کرم کریں ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔

اس میٹنگ میں شامل وزیر توانائی اختر ملک نے کہا کہ ہم پارٹی کے دوست اکٹھے ہوئے تھے اور وزیراعظم عمران خان ہمارے لیڈر ہیں اور رہیں گے۔ وہ جیسا کہیں گے ہم حکم بجا لائیں گے۔ ہم پارٹی کے ہر فیصلے کے پابند ہیں۔ ہمیں کبھی بھی کسی بھی میٹنگ میں جانے سے نہیں روکا گیا۔ لیکن اگر مستقبل میں پارٹی نے منع کیا تو ہم اس پر عمل کریں گے۔

صمصام بخاری نے بھی کہا ہے کہ میں تو آج ملاقات میں موجود نہیں تھا میں کسی گروپ کا حصہ نہیں ہوں اور جو وہاں میٹنگ میں موجود لوگ تھے وہ بھی کسی گروپ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ہم سب پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور عمران خان کی قیادت میں متحد ہیں۔

میرے تجزیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن پنجاب میں سب اچھا نہیں ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف پی ٹی آئی کے ہی طاقتور لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ کپتان کو اپنی ٹیم کے ہر کھلاڑی کو سننا چاہیے۔ اور ان کے تحفظات دور کرنے چاہیے۔

علیم خان اور جہانگیر ترین کو اعتماد میں لے کر ساری صورتحال ڈسکس کرنی چاہیے۔ کہ اگر مخلص اور محنتی کھلاڑیوں کو اس بار کھیلنے کا موقع نہیں ملا تو آئندہ ضرور ملے گا۔ اگر ابھی بھی کوئی صورت بن سکتی ہے تو ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ تاکہ پی ٹی آئی متحد ہو کر آئندہ الیکشن میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی میدان میں اتریں۔

بہرحال پاکستان کی سیاسی صورتحال ہر لمحے بدل رہی ہے جو صبح کو اہم ہوتے ہیں وہ دوپہر کو اہم نہیں رہتے۔

پی ڈی ایم کو دیکھ کر ایسا لگا بس اب حکومت گئی تو گئی پھر چوہدری ایسے اہم ہوئے کہ لگا وزیراعلی تو چوہدری ہی بنے گا۔ اب شام ہوتے ہوتے لگ رہا ہے وزیراعلی علیم خان ہو گا۔

ابھی حالیہ عامر مغل اور اسد عمر نے میئر کی کمپین کی تھی اس جلسے میں جہانگیر ترین کی بہن سیمی اذدی نے نا صرف بھرپور شرکت کی بلکہ خطاب بھی کرتی رہیں۔

ایک کھلاڑی نے سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے سیاستدانوں کو تگنی کا ناچ نچوا کے رکھ دیا ہے۔ سارے مل کر بھی اسے ہلا نہیں پا رہے۔ اب تو وزیراعظم عمران خان انٹروینشنل دنیا کو بھی للکار دیا ہے اگر کپتان پانچ سال مکمل کر گیا تو پھر اگلے پانچ سال بھی کپتان کے ہی ہیں۔

حالیہ دنوں میں پنجاب سے نون لیگ کے آٹھ ایم این اے توڑے گئے ہیں یہ کام کسی اور نے نہیں ایک دم خاموش چپ چاپ رہنے والے بزدار نے ہی کیا ہے۔ اور اگلے الیکشن میں سندھ پی پی پی کے ہاتھوں سے سرکتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کسی بھی حکومت کے مشکل وقت میں ناراض اراکین کو چانس مل جاتا ہے کہ وہ کھل کر اپنے تحفظات اپنی پارٹی کے سامنے کھل کر رکھ سکیں اور اپنے مطالبات پورے کروا سکیں۔ بالکل اسی طرح علیم اور جہانگیر بھی اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں جو کہ ان کا حق بھی ہے انھوں نے بہت محنت کی ہے عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے اور انھیں اس کا صلہ بھی ملنا چاہیے۔

سیاست میں جو دکھایا جا رہا ہے ویسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ سیاسی بساط بچھا تو دی گئی ہے لیکن سیاسی مہرے کب کہاں کدھر کروٹ بدل لیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سیاسی بحران پانی کا بلبلہ ہے جو وزیراعظم عمران خان کی ایک پھونک کے ساتھ بیٹھ جائے گا۔

جو بھی ہو آخری فیصلہ عمران خان کا ہی ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments