مسئلہ کشمیر پر مسلط جمود، اور تجاویز


ریاست جموں کشمیر کے علاقے جموں سے تعلق رکھنے والے ”گلوبل مین کائنڈ“ پارٹی کے چئیر مین، بابو سنگھ جی نے مسئلہ کشمیر پر طاری جمود اور مسئلے کے حل کے لیے ریاست جموں کشمیر کے منقسم حصوں کو یکجا کر کے بھارت اور پاکستان کے مشترکہ کنٹرول میں دیے جانے کی تجویز پیش کی ہے، ریاست جموں و کشمیر کے ایک باشندے کی حیثیت سے اس غیر انسانی اور ظالمانہ تقسیم اور جمود کے شکار اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی تجویز اور آگے بڑھنے کا قابل عمل راستہ سوچنا ریاست جموں و کشمیر کے ہر باشندے کی طرح، محترمی بابو سنگھ جی کا حق ہے، لیکن اس تجویز کے کچھ مضمرات، خطرات اور مشکلات بھی ہیں، جن کو نگاہ میں رکھے جانا ضروری ہے، اس مضمون میں راقم نے اس تجویز اور دیگر ممکن متبادل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

گلوبل مین کائنڈ پارٹی کے چئیر مین بابو سنگھ جی، کی طرف سے پیش کیا گیا، یہ حل لگ بھگ اس حل سے ملتا جلتا ہی ہے، جو میں نے اپنے ایک سابقہ مطبوعہ مضمون میں تجویز کیا تھا، فرق یہ ہے کہ میں نے یہ لکھا تھا کہ بھارت اور پاکستان ریاست کے اپنی اپنی طرف کی سرحد تک ہی اپنے اپنے ممالک کی حدود تک ہی محدود رہیں، ریاست کشمیر دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے ویزا فری ہو، اسی طرح ریاست کے باشندوں کا داخلہ پاکستان اور بھارت میں ویزا فری ہو۔

ریاست کی اپنی انتظامیہ ہو، جو اندرونی نظم و نسق اور امن و امان کی ذمہ دار ہو، ریاست کو فوج رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی ہم فوج رکھنے کا خرچ بے وجہ برداشت کر سکتے ہیں، ریاست کی سیاحت، معدنیات اور آبی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی ریاست کے شہریوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی پر خرچ کی جائے گی۔ یہ واحد تجویز ہے جس پر عمل کرنے سے معاملے کے تینوں فریق یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنیادی فریق کشمیری عوام تینوں ون ون پوزیشن میں رہیں گے اور اس طرح کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان امن و آشتی، بھائی چارہ، اور دوستی و ترقی کا پل بن جائے گا۔

اس تجویز کے برعکس اگر بھارت اور پاکستان کو اس ریاست کے وسائل اور اندرونی انتظام میں دراندازی کا موقع ملا، تو کشمیر کی سرزمین ان فریقین کے درمیان مقابلے اور سازشوں کا گڑھ بن کر رہ جائے گی، جیسے ریاست کے دونوں حصوں میں، دونوں طرف سے اب بھی ہو رہا ہے۔ جب انصاف کی بنیاد پر ریاست کا انتظام اور تعمیر و ترقی و تعلقات کی ذمہ داری ریاست کے عوام کے سپرد کی جائے گی، تو وہ اپنے اور اپنی ریاست کے مفاد میں قدرتی طور پر، پوری کوشش کریں گے، کہ ریاست کو سازشوں اور مقابلے و تعصب سے پاک اور پرامن رکھا جائے۔

یہاں میں نے مختصراً اپنی تجویز کا خاکہ تحریر کر دیا ہے۔ کیونکہ کشمیر پر طاری اور مسلط کردہ جمود کسی کشمیری کو قبول نہیں ہے، اگر اس مسئلے کو ہمدردی اور نیک نیت کے ساتھ، ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کے مفاد میں خصوصاً، اور برصغیر پاک و ہند کے اربوں عوام کے مفاد اور سلامتی کے نقطہ نظر اور مقصد سے عموماً، انصاف کی بنیاد پر ”مخاطب“ نہ کیا گیا تو یہ آتش فشاں کسی بھی وقت دوبارہ پھٹے گا، اور برصغیر پاک و ہند کا امن اور سلامتی کے ساتھ، تعمیر و ترقی کا عمل تباہ کر کے رکھ دینے کے امکانی خطرے کا باعث بنے گا۔ ہم سب کو بلا تخصیص مذہب و نسل صرف ریاست جموں وکشمیر کے باشندے ہونے کی بنیاد پر باہمی محبت، اعتماد اور اتحاد کے ساتھ اس ضمن میں ریاست کی اس غیر انسانی تقسیم اور اس مسئلے کے انصاف اور امن پر مبنی حل کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments