خان صاحب! تقریر جاری رکھیں


امی کو درپیش طبی مسائل کے باعث میں پچھلے چار ماہ سے گوشہ نشین رہا۔ ابھی اللہ کا شکر کہ امی روبہ صحت ہو رہی ہیں۔ اور بزرگ و برتر سے یہی دعا ہے کہ امی پھر سے صحت والی زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ ان چار مہینوں میں وطن عزیز کے ہر اچھے برے حالات سے بے خبر ہی رہا۔ اب کچھ دنوں سے دیار غیر میں بیٹھ کر ٹویٹر، فیس بک، آن لائن اخبارات کے سابقہ شمارے، پچھلے چار ماہ سے وٹس ایپ پے آئے پیغامات اور تصویروں کو اس غرض سے کھنگال مارا کہ شاید کوئی اچھی خبر، کوئی امید سے بھری تصویر نظر آ جائے۔

افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے۔ کہ کوئی امید بر نہیں آتی۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سوائے چند وزراء کو حسن کارکردگی پر ملنے والے تمغوں کے سب کچھ ویسا ہی ہے۔ اس بات پر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ چلیں اندھوں میں کانے راجے ہیں۔ اب ان کانے راجاؤں کو اپنی وزارتیں کتنی شفاف نظر آتی ہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ ان وزارتوں کی کارکردگی سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمغے دینا والا اندھا ہے۔

ولائتی حکمران کے ان دیسی وزیروں کو چاپلوسی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس ولائتی حکمران کو دیسی چاپلوسی اس قدر پسند کیوں ہے۔

وطن عزیز کے کچھ دکھ ایسے بھی نظر سے گزرے کہ دل نے اہ بھری۔ کاش بے خبر ہی رہتا۔ پشاور دھماکے کی تصاویر دیکھنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ مگر دل و دماغ مسلسل ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی پر افسوس اور اداروں کی نا اہلی پر ماتم کر رہے ہیں۔ اور دل ہی دل میں ایسے گھناؤنے کام کرنے والوں پہ لعنت بھیج رہا ہوں۔ لعنت ایسے انسانیت دشمن درندوں پر۔

یہ دہشت گردی کی آگ بھی ہمارے ہی کچھ سابقہ حکمرانوں کے پرائی جنگوں میں کودنے کے سبب ہے۔ اور حکمران وقت بھی اب اپنے آباء کی روایات پر چل نکلا ہے۔ جیسے افغانستان کی جنگ کے آفٹر شاکس ہم ابھی تک لاشیں اٹھا کر بھگت رہے ہیں۔ ایسے ہی نئے اتحادی کے ساتھ مل کر یوکرائن جنگ کا حصہ بننے پر لوگ خان صاحب کو ہمت و جرءات کا پہاڑ بنا کر تو دکھا رہے ہیں۔ مگر میں خوف زدہ ہوں وطن عزیز کے بال بچوں کا مستقبل کہیں اس پہاڑ تلے دب نہ جائے۔

قبلہ دادا مرحوم نے بہت بچپن میں ایک کہانی سنائی تھی۔ جس کا لب لباب یہ تھا۔ کہ ایک غریب دیہاتی کو شہر میں کسی بڑے لاٹ صاحب سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہو گیا۔ واپس گاؤں آ کر اس نے لوگوں سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیا۔ دورہ روس کے بعد خان صاحب کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ مسلسل تقریر جھاڑ رہے ہیں کہ ہم اب غلام نہیں رہے مغرب کے الا بلا۔

وزیروں کو تمغے، غریبوں کو صبر، اپوزیشن کو گالم گلوج ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اب غریبوں کو صبر کرنے کے ساتھ ساتھ حکمران وقت یہ خوشخبری بھی سناتا ہے کہ شکر کریں آپ یورپ میں نہیں وہاں تو بہت مہنگائی ہے۔ اور کینیڈا میں خان صاحب کے مہنگائی بارے ہوشربا انکشافات پر یقیناً جسٹن ٹروڈو بھی رو دیا ہو گا۔ اور ساتھ یہ تلقین بھی کی جاتی ہے کہ اگلے پانچ برسوں کے لیے منتخب کریں۔ یہ مدت بہت کم تھی نصیب جلانے کو۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران وقت عوام نہیں، گوبھی کے پھولوں سے مخاطب ہو۔

سکول کے زمانے میں ہمارے ایک استاد محترم نے فن تقریر سکھاتے ہوئے ایک لطیفہ سنایا تھا۔ کہ ایک شخص کو حد درجہ شوق تھا تقریر کرنے کا۔ اور رب کی عطا کہ اچھے منصب پر بھی تھا۔ مگر تقریر کے لیے کھڑا تک نہیں ہو سکتا تھا۔ مختلف ماہرین فن تقریر سے مشورے اور ہدایات لینے کے بعد بھی تقریر کرنے میں ناکام رہا تو ایک سیانے مشورہ دیا کہ روز صبح باغ میں جا کر سبزیوں کے سامنے تقریر کیا کرو۔ کوئی چالیس دن کی اس مشق کے بعد جب پہلی بار وہ انسانوں سے مخاطب ہوا تو بس اتنا کہہ پایا۔ بندے، بندے ہوتے ہیں اور گوبھی کے پھول، گوبھی کے پھول۔

ہمارے حکمران وقت کو بھی کوئی زیادہ سیانا ٹکر گیا ہے جو موصوف کو باور کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ یہ عوام گوبھی کے پھول ہی ہیں۔ آپ پورے اطمینان سے تقریر جاری رکھیں۔

جی خان صاحب! آپ تقریر جاری رکھیں۔ جب تک ہم میں بھوک سے تنگ آ کر بچوں کو دریا میں پھینکنے کی ہمت ہے۔ جب تک لاشیں اٹھانے اور دفنانے کی ہمت ہے۔ جب تک سڑکوں پر مرنے کی ہمت ہے۔ جب تک اسپتالوں کی دہلیز پر سسک سسک کر جان دینے کی ہمت ہے۔ جب تک انصاف کے لیے مارے مارے پھرنے کی ہمت ہے۔ جب تک ہم میں رونے کی ہمت ہے۔ جب تک ہم میں خودکشیاں کرنے کی ہمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments