تحریک عدم : کیا تاریخ رقم ہو پائے گی


تاریخ پہ تاریخ ، تاریخ پہ تاریخ اور بالآخر آج 8 مارچ بروز منگل تحریک عدم اعتماد باقاعدہ طور پر اسمبلی میں جمع کرا دی گئی اور پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ بھی بالآخر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اسلام آباد پہنچ ہی گیا یا یوں کہہ لیں کہ اپوزیشن نے کفر توڑا خدا خدا کر کے، یہ کفر تو ٹوٹا لیکن کس کے لیے عوام کے لیے یا اپنا سیاسی مستقبل سنوارنے کے لیے۔ کیونکہ پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے سے پاکستان کے سیاسی ماحول میں کافی گہما گہمی رہی۔

اپوزیشن جو چار سال سے ناکام دکھائی دی اچانک ایکٹو ہو گئی۔ سیاسی حریفوں میں قربتیں بڑھنے لگیں، 14 سال کی دوریاں رفاقتوں میں بدلنے لگیں اور حکومت کہ ناراض اتحادیوں کے ساتھ بھی فاصلے کم ہونے لگے اور اس سارے سیاسی معجزوں کا محور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح تحریک عدم اعتماد لاکر ایک آئینی طریقے سے عمران حکومت سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔

اس تحریک کے حوالے سے اپوزیشن کافی پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پراعتمادی کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس اعتماد کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا نیوٹرل ہونا ہے؟ کیونکہ جب تک امپائر عمران حکومت کے ساتھ تھا ہم نے صرف اپوزیشن کو شکست خوردہ ہوتے ہی دیکھا۔ کیونکہ ہم نے حال ہی میں دیکھا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود وہ حکومت کی طرف سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا امینڈمنٹ بل منظور ہونے سے نہیں روک سکے اور جس میں اپوزیشن کی جانب سے آٹھ ممبران ووٹنگ کے دن غیر حاضر ہو گئے اور دوسری طرف مارچ 2021 میں بھی اپوزیشن کو منہ کی کھانی پڑی جب عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن اس سال اچانک ہواؤں کا رخ تبدیل ہو گیا۔

اب ان ہواؤں کی تبدیلی کو امپائر کا نیوٹرل ہونا تصور کیا جائے یا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی کامیابی۔ کیوں کہ اپوزیشن یہ بار بار کہتی نظر آ رہی ہے کہ ”ہمارے پاس نمبر پورے ہیں“ اب حقیقی معنوں میں اپوزیشن کے اعتماد کا کیا مطلب ہے کیوں کہ اپوزیشن کی تعداد 163 ہے لیکن یہ تعداد دو ممبران کی وجہ سے کم ہو سکتی ہے ایک تو ایم این اے علی وزیر جیل میں ہیں اور شاید ووٹ نہیں ڈال سکیں اور دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک ایم این اے قانونی وجوہات کی بنا پر بیرون ملک ہے جو شاید حاضر نہ ہو سکے۔

تو اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے 172 کے جادوئی نمبر تک پہنچنے کے لئے دس سے بارہ افراد کی ضرورت ہے لیکن اپوزیشن یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم، پی ایم ایل۔ ق، جی ڈی اے اور بی اے پی میں سے ان کے ساتھ کوئی شامل نہیں شبہ یہ ہی ہے کہ حکومت کے اپنے ارکان ہی اپوزیشن کو میسر ہوں گے۔ اس وقت جہانگیر ترین گروپ حکومت سے ناراض ہے اور علیم خان بھی جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہو گئے ہیں اور پنجاب حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے اور مطالبہ ہے کہ پہلے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو مائنس کیا جائے آئے پھر حکومت سے بات ہوگی تو ہو سکتا ہے اسی گروپ سے لوگ اپوزیشن کو میسر ہوں۔

لیکن دوسری طرف پاکستانی سیاست کے تین بڑے شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری بھی چوہدری برادران کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کر چکے ہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کے باوجود ق لیگ کی پوزیشن ابھی واضح نہیں کیوں کہ چوہدری برادران کے معاملے میں پاکستان مسلم لیگ نواز تذبذب کا شکار ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کا خیال ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے اور اگر عثمان بزدار صاحب کو ہٹانا پڑتا ہے تو ان کی جگہ اگر چوہدری برادران میں سے کسی کو وزیراعلی بنایا گیا تو ان کی پنجاب میں پوزیشن غیر مستحکم ہو جائے گی۔

دوسری طرف عمران خان صاحب نے بھی لاہور میں چوہدری برادران سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی لیکن اس ملاقات میں عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کی اب یا تو یہ ان کا اپنے اوپر اعتماد تھا یا بیوقوفی یا چوہدری برادران پر اعتماد کہ ان کی کرسی نہیں کھسکے گی لیکن آج شب یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ چوہدری شجاعت جو کافی عرصے سے علیل ہیں اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے آئے۔

اب اس ملاقات سے حکومت میں گھبراہٹ تو ضرور پیدا ہوئی ہوگی کیونکہ ندیم افضل چن پہلے ہی پیپلز پارٹی میں جا چکے ہیں، جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان بھی حکومت سے منحرف ہیں یا ہم اس صورت حال کو ایسے بیان کر سکتے ہیں کہ جب جہاز بھنور میں پھنس جائے تو کیپٹن آلتو فالتو سامان سمندر برد کر دیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دور جہاز کو لے جایا جا سکے تو اس وقت عمران حکومت کا جہاز سیاسی بھنور میں پھنس چکا ہے لیکن یہاں کیپٹن خود کسی کو اپنے سے الگ نہیں کرنا چاہتا بلکہ سیاسی لوٹے خود کا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے ادھر ادھر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔

یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور اس وقت خان صاحب کا سورج ڈوب رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سیاست کی مجبوریاں ہیں کہ ”ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز“ اگر پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی بات کی جائے تو اس سے پہلے دو وزرائے اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی پہلی یکم نومبر 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف لائی گئی جو 12 ووٹز سے ناکام ہو گئی اور دوسری 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف جو ناکام ٹھہری۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے گئی یا نئی تاریخ رقم ہو گی ویسے تاریخ دونوں صورتوں میں ہی لکھے جائے گی اور دونوں صورتوں میں اس کا شرف وزیراعظم عمران خان کو ہی جائے گا پہلی صورت اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وزیراعظم عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اس طریقے سے برطرف ہوں گے اور دوسری صورت یہ کہ اگر تحریک ناکام ہو جاتی ہے اور خان صاحب پانچ سال مکمل کر لیتے تو وہ پہلے وزیراعظم ہوں گے پاکستان کے جو اپنی مدت پوری کریں گے۔

ویسے اگر اس وقت اپوزیشن ہاتھ پاؤں ہلا رہی ہے تو عوام کی فکر میں نہیں بلکہ اپنی فکر میں میری ذاتی رائے ہے کہ جہاں اپوزیشن تقریباً چار سال سوئی رہی وہاں ابھی بھی سوئی رہتی اگر اب اس صورتحال میں حکومت کو ہٹا دیا گیا تو خان صاحب سیاسی شہید بن جائیں گے۔ ان کو آئندہ انتخابات میں کہنے کے لیے بہت کچھ مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments