حلیمہ سلطان اور بدقسمت کپتان


اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ کپتان کے سینے میں قوم کا بے پایاں غم ہے۔ وہ صدق دل سے اس بدقسمت قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ وہ صرف کمنٹری کر کے ہی سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا تھا۔ اور جتنا وہ ہینڈسم ہے، وہ ماڈلنگ کر کے اس سے ڈبل رقم کما سکتا تھا اور بادشاہوں کی طرح عیش و عشرت میں ساری زندگی بسر کر سکتا تھا۔ اور کچھ نہ بھی کرتا تو برطانیہ میں ہی رک جاتا جہاں بڑے بڑے لارڈ اس کی قدم بوسی کو اپنے لیے اعزاز جانتے تھے۔ سوشل میڈیا کے مطابق لارڈ گولڈ سمتھ کے ترکے سے ہی جمائما کو بارہ ہزار کروڑ پاؤنڈ سٹرلنگ (یعنی ایک کھرب بیس ارب پاؤنڈ یا ایک کھرب ساٹھ ارب ڈالر) ملے تھے۔ یہ ان کے مختصر سے خاندان کی سات کیا چودہ پشتوں کو بھی شاہی زندگی گزارنے کو کافی ہوتے۔ کپتان نے اپنی قوم کی خاطر یہ سب دولت ٹھکرا کر وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس بدقسمت قوم کا سردار بننے کے بعد وہ نہایت نیک نیتی سے جو بھی قدم اٹھاتا ہے وہ الٹا گلے پڑے جاتا ہے۔

اب ارطغرل کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ کپتان نے یہ سوچ کر یہ ڈرامہ اردو میں ڈبنگ کروا کر پی ٹی وی پر ڈالا تھا کہ بدتمیز اردو میڈیم والی قوم بھی جذبہ جہاد سے سرشار ہو گی اور اس کے دل میں صلیبی لڑاکوں کے کشتوں کے پشتے لگانے کا عزم لہریں لے لے کر بیدار ہو گا۔

اس کے بعد پہلے تو عرب ہی ناراض ہو گئے کہ اصل مجاہدین ہم ہیں لیکن کپتان پاکستانیوں کو ترکوں سے عقیدت میں مبتلا کر رہا ہے، حالانکہ اسلام ہے ہی خالص عرب کی چیز، اور عربوں کے گھوڑے بھی زیادہ اعلیٰ نسل کے مانے جاتے ہیں تو پھر ان کے ہوتے ہوئے ترکوں کو کیوں رول ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔

لیکن معاملہ یہیں نہیں رکا۔ کپتان نے بھی شاعر انوری والی قسمت پائی ہے کہ جو بلا بھی آسمان سے نازل ہوتی ہے سب سے پہلے کپتان کا پتہ ہی پوچھتی ہے۔ کپتان کی نیت تو یہ تھی کہ پاکستانیوں کو عظیم مجاہد ارطغرل کے نقش قدم پر چلنے کی طرف مائل کرے، مگر بدقسمتی سے اس قوم کو مسز ارطغرل یعنی حلیمہ سلطان زیادہ اچھی لگنے لگی۔ یوں ساری پاکستانی قوم حلیمہ سلطان کو فالو کرنے لگی۔ بلکہ فالو کیا سلیس اردو میں کہیں تو اس کا پیچھا کرنے لگی۔ دق کر کے رکھ دیا بچاری لڑکی کو۔

ڈرامہ دیکھتے ہی ہر پاکستانی کے دل میں ایک ایسی نازک اندام شرمیلی سی چھوئی موئی لڑکی کا خواب انگڑائی لینے لگا جو خاوند کے دفتر سے گھر واپس آنے سے پہلے پہلے نہ صرف باورچی خانے کا کام سمیٹ دے، جھاڑو پھیر کر گھر کی جھاڑ پونچھ کر دے، کپڑا لتا دھو دے، ساس سسر کی خدمت کرے، اپنے دس بارہ سگے اور تین چار درجن سوتیلے بچوں کو ہوم ورک کروائے، اور خاوند کے گھر واپس پہنچنے پر لذیذ اور گرما گرم کھانا اس کی خدمت میں پیش کرے۔ اس کے علاوہ درمیان میں جو فالتو وقت ملے اس میں گھوڑا پکڑے اور کفار پر سرپرائز حملہ کر کے ان کی صفیں بھی درہم برہم کر آئے اور اگر دفتر والوں نے اس وفا شعار مجاہدہ کے خاوند کو دھوکے سے پکڑ کر میز سے باندھ رکھا ہو تو اسی ہلے میں اسے بھی آزاد کرواتی لائے۔

اسی چاہ میں لاکھوں پاکستانیوں نے حلیمہ سلطان عرف اسرا بلگچ کو انسٹا گرام پر فالو کرنا شروع کر دیا کہ پتہ تو چلے کہ ایک آئیڈیل مسلمان لڑکی میں متذکرہ بالا صفات کے علاوہ اور کیا گن ہوتے ہیں۔ ادھر ایک سرپرائز ان کا منتظر تھا۔

پاکستانیوں کو یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ اسرا بلگچ وہ حلیمہ سلطان نہیں ہے جو ٹوتھ برش کی بجائے مسواک کرتی تھی، مرسڈیز کی بجائے اسپ ترکی کو رونق بخشتی تھی، اور کرسچن ڈیور کے سی تھرو لباس کی بجائے ایسے لمبے چوغے اور موٹی پوستینیں پہنا کرتی تھی جو کسی بھی برفانی گائے یعنی مسز یاک کے جسم پر راحت کا سامان ہوتے ہیں۔ بلکہ انسٹاگرام پر عینی شہادت موجود ہے کہ وہ سی تھرو لباس بھی کہاں گوچی کے محرم پہن کر ہی سرعام غسل آفتابی و آبی کر لیتی ہے اور اس دوران اپنے فوٹوگرافر کو بھی ہوشیار رکھتی ہے۔ اور پھر غضب خدا کا، ایسی رنگین و سنگین تصاویر وہ بے دھڑک اپنے انسٹاگرام پر ڈال دیتی ہے جن میں اس نے اس سے بھی مختصر لباس زیب تن کیا ہوتا ہے جتنا ڈرامے میں حلیمہ سلطان کی گھوڑی کو پہنایا جاتا ہے۔

بہرحال جہاں کسی بات میں شر کا پہلو ہو، وہاں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ پہلو کسی حسینہ کا ہو۔ تو ایک کافر بت کو ایمان کی دعوت دینے سے بڑھ کر اور کیا نیکی ہو سکتی ہے؟ کافر صنم کو راہ راست پر لانے کی برکات فیض بھی نسخہ ہائے وفا میں درج کر گئے ہیں۔

گر بازی ”تبلیغ“ کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

اب کوئی بیالیس لاکھ مرد و زن اسرا بلگچ کو انسٹاگرام پر فالو کر رہے ہیں جن میں زیادہ نہیں تو چالیس لاکھ پاکستانی ہوں گے اور سب نہایت نیک نیتی سے اسے گناہوں کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی طرف راغب کرنے کے مقدس مشن پر ہیں۔ اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں کہ ”باجی پورے کپڑے پہنا کرو، ایسے کپڑوں میں تمہاری نیکیاں خراب ہوتی ہیں اور تمہارے مبلغین کا وضو“ ۔ لیکن صاحب، شیطان بہت زور آور ہے۔ بہکاتا ہے تو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ وہ عفیفہ بھی ان ناصحین سے لڑنے لگی ہے کہ ”میں نے تو اداکاری کی تھی، اب اگر میرا اگلا کردار کسی یہودی حسینہ کا ہوا تو کیا میں یہودن بن کر باقی زندگی گزاروں گی؟ میں حلیمہ سلطان نہیں اسرا بلگچ ہوں۔ میاں اپنے کام سے کام رکھو، میں چوغا پہنوں یا بکنی، تمہارا کیا جاتا ہے؟“ حضور اس قدر معصوم بھی مت بنیے، آپ خوب جانتی ہیں کہ کیا جاتا ہے۔ دل جاتا ہے دل۔

اب کہیں ان چالیس لاکھ شمشیر بکف مبلغین کی وجہ سے پاک ترک تعلقات میں دراڑ ہی نہ پڑ جائے کہ ساری ترک قوم نہایت حیرت سے یہ سارا ماجرا دیکھ رہی ہے۔ ترک غصے میں ہوں گے کہ پاکستانی لڑکے ہماری لڑکی کو چھیڑ رہے ہیں۔

کپتان کی قسمت بھی تو خراب ہے۔ وہ بدقسمتوں کی قوم کا سردار جو ہے۔ بہرحال اگر معاملہ بگڑ بھی گیا تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ باجی باجی کر کے ”حلیمہ سلطان“ پر تبلیغ کرنے والے گیم الٹی پڑتے دیکھ کر معاملہ سنبھالنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس تین لفظ کہیں گے اور معاملہ سیٹ۔ ”باجی ڈر گئی“ ۔

Published on: Sep 3, 2020

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar