پٹرول بم حقیقی معنوں میں معذور افراد پر گرتا ہے


2017 ء کی مردم شماری سے قبل مجھ سمیت ملک بھر کے معذور افراد خوش تھے کہ شاید ہمیں بھی اس میں شمار کیا جائے گا۔ مردم شماری کے اعداد و شمار حکومت اور دنیا کے سامنے آنے کے بعد حکومت معذوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس وقت کی حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایسا کھیل کھیلا جس کی مثال نہیں ملتی۔ معذور افراد کو مردم شماری کے عمل سے ہی باہر کر دیا۔ تاکہ نہ اعداد و شمار عوام کے سامنے آئیں اور نہ ہی کام کرنا پڑے۔

شریف برادران کا یہ گناہ اتنا سنگین ہے کہ اسے معذور افراد اور انسانی حقوق کی تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ڈبلیو۔ ایچ۔ او کی تحقیق کے مطابق معذور افراد پاکستان کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں معذور افراد کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ معذور افراد کے مسائل میں حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے معذور افراد تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ اپنے خاندان اور معیشت پر بھاری بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق معذور افراد ہماری معیشت پر دس سے بارہ ارب ڈالر کا بوجھ ہیں۔

میں پڑھے لکھے معذور افراد کی تلاش میں رہتا ہوں۔ ان کے انٹرویوز کرتا رہتا ہوں۔ انٹرویوز کا مقصد گھروں میں بیٹھے معذور افراد، ان کے خاندان والوں اور معاشرے کو یہ باور کرانا ہے کہ معذور افراد تھوڑی سی مدد اور سپورٹ سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ رسائی اور ٹرانسپورٹیشن جیسے مسائل معذور افراد کو ناکارہ بنانے میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں حقیقی معنوں میں معذور افراد پر بم بن کر گر رہی ہیں۔

معذور افراد کے انٹرویوز کے دوران میں ٹرانسپورٹ اور رسائی کے مسائل پر لازمی سوال کرتا ہوں۔ انٹرویوز کے دوران مجھے زیادہ تر لوگ ایسے ملے جو ریگولر تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ٹیکسی، وین اور رکشہ کے بڑھتے کرایوں کی وجہ سے ریگولر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اس لیے زیادہ تر نے ڈگریاں پرائیویٹ، اوپن اور ورچوئل یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے مکمل کی ہیں۔

صنعتی انقلاب کے چوتھے دور میں تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے معذور افراد معاشرے میں مقام بنا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں معذور بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اتنی لاپروا پائی جاتی ہے کہ کرونا وبا کی آمد سے چند ماہ قبل مجھے تعلیم کے حوالے سے ایک میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس میٹنگ میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اسپیشل ایجوکیشن کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب سپیشل ایجوکیشن کے سابقہ ڈی۔ جی نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک کے خصوصی تعلیمی اداروں میں صرف ستر ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ کرونا وبا، مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بہت سے والدین نے خصوصی بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع کروا دیا ہے۔

مجھے 2006ء میں نجی کمپنی میں ملازمت کا موقع ملا۔ اچھی نوکری کے حصول کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ شاید اب زندگی کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ دفتر جانے کے لئے ٹیکسی ڈھونڈنا شروع کی تو کوئی بھی چھ ہزار روپے سے کم پر راضی نہ ہوا۔ اس وقت میری تنخواہ آٹھ ہزار تھی۔ پھر اسی طرح زندگی کی گاڑی چلتی چلی گئی۔ خوب تیار ہو کر آفس جاتا کام کرتا۔ مہینے کے اختتام پر جو پیسے ملتے سارے ٹیکسی والے کو دے دیتا۔ یہ سلسلہ چھ سال تک اسی طرح چلتا رہا۔ چھ سال بعد ہمت کر کے کمپنی کے چیئرمین کو درخواست دی جس کے بعد کمپنی نے مجھ سمیت کمپنی کے تمام معذور افراد کو ٹیکسی کا کرایہ دینا شروع کر دیا۔

چند روز قبل راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک معذور لڑکی سے بات ہوئی جو بیساکھی کے سارے چل لیتی ہیں۔ لڑکی کی رہائش چوڑ میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کے دفتر میں جاب کرتی ہیں۔ چند ماہ قبل تک یہ اور ان کی بہن پچیس ہزار روپے ٹیکسی کا کرایہ دیا کرتی تھیں۔ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونا شروع ہوا۔ دو تین ماہ میں پٹرول اتنا مہنگا ہو گیا کہ اب انھیں چالیس ہزار میں بھی کوئی ٹیکسی والا لے جانے پر راضی نہ تھا۔ لڑکی کے پاس نوکری چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر آفس کے ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ آپ بحریہ ٹاؤن میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں شفٹ ہوجائیں۔ بہنوں نے نوکری بچانے کی خاطر ہاسٹل میں داخلہ لے لیا۔ پھر ہمت کرتے ہوئے اپنا چوڑ والا گھر کرائے پر دے دیا اور والدین کو لے کر بحریہ ٹاؤن شفٹ ہو گئیں۔

اس طرح بہنیں نوکریاں بچانے میں کامیاب ہو گئیں۔ لیکن یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ لڑکی بیساکھی سے چل لیتی تھی۔ اگر اس کی جگہ کوئی ویل چیئر استعمال کرنے والی لڑکی ہوتی تو لازما ”اسے نوکری چھوڑنا پڑتی۔ کیونکہ ویل چیئر والی لڑکیوں کے مسائل چلنے والی لڑکیوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک کے معذور افراد بغیر کسی جرم کے عمر قید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ زیادہ تر چالیس سال تک پہنچنے سے قبل ہی سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ بہت سے والدین، سکول، کالج اور یونیورسٹی میں جانے والے معذور بچوں کا تعلیمی سلسلہ ختم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، بہت سے معذور نوکریوں کو خیرباد کر چکے ہیں، جو معذور افراد ہمت کر کے گھروں سے باہر نکلتے تھے وہ بھی گھروں میں قید ہو گئے ہیں، جو والدین معذور بچوں کو کبھی کبھار گھمانے لے کر جاتے تھے ان میں سے بیشتر چاہتے ہوئے بھی نہیں لے جا سکتے۔

پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے نتیجے میں گاڑیوں پر سفر کرنے والوں نے موٹر سائیکل اور وین پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہاتھوں اور پیروں والے ہر مشکل کا کسی نہ کسی طرح حل نکال لیتے ہیں۔ لیکن معذور افراد کے لئے یہ سب کرنا ممکن نہیں۔ پٹرول بم حقیقی معنوں میں معذور افراد پر گر رہا ہے اور ان کے مستقبل کو تاریک سے تاریک تر کرتا چلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments