مذہب کے نام پر پشاور میں کشت و خون


جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا یہ ایک قدیم تاریخی اور مشہور بازار ہے اس کا مختصراً تعارف قارئین کے لئے یہ کہ  قدیم لوگوں’ ان کی بودوباش، علاقے کی اہمیت اور دنیا میں بالخصوص برصغیر ہند و پاک اور ایشیائی ممالک میں اس کی وجہ شہرت کیا ہے۔

یہ سانحہ قصہ خوانی بازار میں پیش آیا جو پشاور کا بارونق مشہور علاقہ ہے۔ یہاں برصغیر کی اہم شخصیات پیدا ہوئیں اور یہ تاریخی اعتبار سے عالمی شہرت کا حامل شہر ہے۔ علاوہ ازیں یہ سیاسی اور ادبی محفلوں کے لئے بھی مشہور رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ شہرت یہ روایتی قہوہ خانوں کی دکانوں کی وجہ سے مشہور ہے اور قیام پاکستان سے قبل اس بازار میں غیر ملکی سیاحوں، تاجروں اور فوجی مہمات کا آغاز اور اختتام جو تفصیلاً ہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے ان تمام باتوں قصوں کی وجہ سے یہ بازار قدیم دور کی یاد دلاتا ہے۔ اسی لئے اس کو قصہ خوانی بازار کہا جاتا ہے۔

قصہ خوانی بازار میں ایک گلی پھولوں کی وجہ سے مشہور ہے کوئی وقت تھا پھولوں کے اس شہر پشاور سے ہمارا سارا ملک خوشبوؤں سے مہک رہا ہوتا تھا بلکہ اردگرد کے پڑوسی ممالک بھی پھول یہاں سے منگوایا کرتے تھے۔ اس لئے اس شہر کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کو آج ان ظالم درندہ صفت شیطانوں نے یکم شعبان (مبارک مہینہ) اور جمعة المبارک 4 مارچ 2022 ء کو نماز جمعہ کے موقع پر خون کی ہولی کھیلی جس سے 62 پھول (افراد) شہید ہوئے اور 109 پھول مرجھا گئے (زخمی) ۔

اس واقعہ پر ہر آنکھ اشک بار اور انسانیت ماتم کدہ ہے۔ اس پر دکھ اور غم و غصہ کا جتنا بھی اظہار کیا جائے کم ہے۔ یہ مسجد امام بارگاہ اہل تشیع حضرات سے تعلق رکھتی ہے۔ پشاور ہو یا کوئٹہ شہر اسلام دشمن مذہبی جماعتیں انہی اقلیتی فرقہ کو ٹارگٹ کرتی ہیں یہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کی چال ہے اور اس کے پیچھے وہ قوتیں کارفرما ہیں جو پاکستان اور اسلام کو دنیا میں بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ اس سانحہ کو ہم کسی بھی زاویہ سے دیکھیں چاہے وہ کرکٹ کے حوالے سے ہو یا کبھی بچوں کا فوجی نغمہ والا واقعہ ”ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ سنا کر عوام کو تسلی دی جاتی ہے آج تک اس کے سدباب اور اس کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات اٹھانے کے لئے حکومتی ادارے اور فوجی انٹیلی جنس (ISI) ناکام رہی ہے۔

اس شہر میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے درجنوں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کل ہی کی بات ہے کہ 5 مارچ کو جماعت احمدیہ فرقہ کے ایک ڈاکٹر شاہد خان جو پشاور کے علاقہ بازید خیل منصور کلینک میں دو برقعہ پوش آدمیوں نے حملہ کر کے شہید کر دیا۔ پچھلی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے دور میں مسلسل اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کہیں شیعہ حضرات کی مسجدوں امام بارگاہوں پر بم دھماکوں خودکش حملہ اور آگ لگانے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

2013 ء میں کوئٹہ ہزارہ ٹاؤن میں 250 افراد کو شہید کیا گیا۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق اس فرقہ کے 2 ہزار لوگوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اسی لئے ہزارہ برادری کے لوگ نقل مکانی اور بیرون ممالک ہجرت کر رہے ہیں۔ اسی طرح عیسائی عبادت گاہوں، ان کی کالونیوں پر حملے کیے گئے جن میں درجنوں افراد مارے گئے اور حالیہ دنوں میں پشاور کے پادری کو بھی قتل کیا گیا۔ ایسا ہی سلوک ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی کیا جا رہا ہے۔

علاوہ ازیں 28 مئی 2010 ء کو لاہور میں احمدیوں کی دو مساجد پر نماز جمعہ پر حملہ ہوا اس میں 90 کے قریب افراد شہید ہوئے اور کئی سو زخمی۔ اب تک ان کے تقریباً 1200 افراد کو شہید کیا جا چکا ہے اور درجنوں مساجد کو مسمار کیا گیا۔ مزید برآں اقلیتی فرقوں کے توہین رسالت کے الزامات پر کئی سو افراد جیلوں میں بے گناہ رہائی کے منتظر ہیں۔ ان میں اکثریت کے اوپر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں حکومت اور عدالتوں کے ججوں پر انتہاپسند مولویوں کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے عدالتیں جلد فیصلہ نہیں کر پا رہی۔

یہ بے قصور افراد 298 C اور 299 C آئینی دفعات جو ناموس رسالت سے تعلق رکھتی ہیں جلد رہائی سے محروم ہیں۔ ملکی اور غیرملکی انسانی حقوق کے ادارے کئی بار حکومت پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان دفعات کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس کو ختم کیا جائے یا اس کا درست استعمال کیا جائے اور بے خوف و خطر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے ابھی تک نکل نہیں پا رہا چونکہ پاکستان انسانی حقوق، مذہبی آزادی، دہشت گردی اور اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔

عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہر وقت رہا ہے اور انسان اس میں کلی طور پر آزاد ہے۔ اس کا دل جو چاہے وہ اس کے مطابق اپنا عقیدہ اپنائے یہ حق کسی کو نہیں دیا گیا۔ قرآنی تعلیم کے مطابق لا اکراہ فی دین یعنی دین کے معاملہ میں کسی پر جبر نہیں۔ لا اکراہ فی دین کی تفاسیر کے ضمن میں مشہور عالم دین سید قطب شہید لکھتے ہیں ”مذہب کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے جو شخص یہ حق چھینتا ہے وہ اس سے گویا اس کی انسانیت چھینتا ہے“ اکراہ کا مسئلہ دین سے زیادہ سیاست سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایمان تو دلیل اور برہان سے پیدا ہوتا ہے کسی قسم کے اکراہ سے پیدا نہیں ہوتا۔

مولانا سید مودودی نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ جہاں تک قرآن کریم کی روح کا تعلق ہے دین میں کسی پہلو سے جبر نہیں کیونکہ ایمان اور اعتقاد کا محل دل میں ہے اور دل اپنی ذات میں ایسی چیز ہے جس پر کوئی جبر و کراہ ممکن ہی نہیں۔

اپنے عقائد جبراً کسی پر زبردستی ٹھونسنے سے ہمیشہ ایک نہ ختم ہونے والا فساد قائم رہتا ہے۔ مذہبی اختلافات کو دور کرنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے سے امن و سلامتی کے ماحول اور ملک میں خوشحالی لاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ شدید ترین مخالف کے معاملہ میں انصاف پر قائم رہا جائے جہاں پر نظام عدل کمزور ہے وہاں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو بدقسمتی سے شعبہ ہائے زندگی اور حکومتی ریاستی ادارے نہایت کمزور، لاچار، رشوت ستانی کا شکار ہیں۔ قوم اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہے۔ ہر کوئی آسمان سے مسیحا کے اترنے کے انتظار میں ہیں۔ یاد رکھیں مامور من اللہ ہی ان تمام برائیوں، مصائب و مشکلاتوں کو دور کر سکتا ہے۔ آخر کار کامیابی اور فتح بھی ان کو ہی ہوتی ہے۔ اللہ کرے ہمارا ملک امن آشتی اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments