سیاسی لیڈر شپ اور عوام کی سیاسی تربیت


جب سے اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی مہم شروع کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کی جیسے نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ صلاح مشورے تیز کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی نے جلسے جلوس بھی شروع کر دیے ہیں۔ اتوار کو پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے خلاف ہمیشہ کی طرح جس قسم کی زبان کا استعمال کیا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ واقعی ہمارے سیاسی لیڈرز کو سیاسی تربیت اور اخلاقیات کی اشد ضرورت ہے۔ جیسے ہر سیاستدان اور سیاسی کارکن کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اسی طرح ان کی سیاسی تربیت ہونا بھی لازمی ہے۔ کیونکہ سیاست دیگر علوم کی طرح قرینے اور آداب کا نام ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے جو پیسے کی بنا پر سیاسی میدان میں کود پڑے یا حادثاتی طور پر سیاست میں آ گئے یا پھر وہ مارشل لاء کی پیداوار ہیں۔

جو خاندانی طور پر سیاست کا تجربہ کر کے سیاست میں آئے ہیں، انہیں موروثی یا خاندانی سیاسی کہہ کر جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک اچھے سیاستدان کو مداری گر کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ وہ عوام کو اپنے پیچھے لگا نا جانتا ہے۔ ایک اچھے سیاسی لیڈر کے لئے لازم ہے کہ وہ سیاسی تعلیم و تربیت سے آشنا ہو۔ اس کے لئے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کی معاشی، سماجی، انصافی اور قانونی کیفیت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔

کیونکہ وہ نہ صرف عوام کو مسائل سے نکالتے بلکہ ان کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں قائداعظم میں موجود تھیں اور ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو میں موجود تھیں۔ ان کے بعد اگر نواز شریف کا نام لیا جائے تو غلط نہ ہو گا مگر وقت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ کچھ غلطیاں کر بیٹھے۔

تو بات ہو رہی تھی سیاسی علم و تربیت کی۔ سیاسیات نے مختلف طرز حکومتوں کو بنیاد فراہم کی ہے۔ معاشرے کی رسم و رواج، اخلاقیات، معیشت، تہذیب کا تحفظ اور نمو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشرہ سیاسی طور پر منظم نہ ہو۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے ایک سیاسی لیڈر کے لئے گریجویشن کی شرط لازمی قرار دی۔ مگر سیاسی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے سیاست آج دھینگا مشتی بن کر رہ گئی ہے۔ بحث مباحثے کے وقت ایوان مچھلی بازار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی لیڈرز کا اثر پارٹی کارکنوں اور عوام میں سرایت کر گیا ہے۔ آج ہر کوئی جارحیت کی زبان بولتا ہے۔ سیاست اس قدر بدنام ہو گئی ہے کہ شریف آدمی سیاست میں آنے سے گریز کرنے لگا ہے۔

سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکن اور عوام کو بھی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسے انصاف اور حقوق کے حصول کے لئے کون سا طریقہ اپنانا چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں جو بے شمار محرومیوں کا شکار ہیں۔ ان کا عملی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔ خصوصاً مسیحی کمیونٹی جن کا کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں جو انکے حقوق کی جنگ لڑ سکے۔ بڑی مدت بعد شہباز بھٹی ایک اچھا دلیر سیاست دان نصیب ہوا تھا مگر زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

وہ اپنی دلیری اور کمیونٹی کو مشکلات سے نکالنے کی پاداش میں دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ ان کی دلیری اور جرات کے پیچھے چرچ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ سب سے بڑھ کر سیاست میں آنے کے لئے معاشی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے۔ آج کل ہر کوئی سوشل میڈیا پر سیاستدان بن کر متحرک ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی سیاسی لیڈر ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی خوابوں کو عملی جامہ اپنانے کے لئے پیسے کے علاوہ بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔

ایک دوسرے کے باہمی صلاح مشورے سے چلنا پڑتا ہے اور ایسی ناپسندیدہ چیزیں بھی اپنانا پڑتی ہیں جن سے کمیونٹی کو فائدہ مل سکتا ہو۔ آج کمیونٹی مختلف گروہوں میں تقسیم ہے۔ اور کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ چند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں وہی سچ ہے مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ کون بتا سکتا ہے کہ ہماری کمیونٹی میں کتنے تھنک ٹینک ہیں اور اگر ہیں تو ان کی آواز سننے کے لئے کتنے لوگ تیار ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالفت یا تنقید کرنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا۔ ایسی سیاست بھلا نہیں کرتی الٹا نقصان کا باعث بنتی ہے۔ سیاست کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر نہیں، عملی سیاست میں آنے کی ضرورت ہے۔

کارل مارکس کے مطابق ظلم و استبداد انقلاب کو جنم دیتا ہے۔ علم سیاسیات بھی ایسے کئی اصولوں کا مجموعہ ہے جو عرصہ دراز سے انسانی مشاہدہ اور تجربہ کا نچوڑ ہیں۔ حکمرانوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مزاج اور انداز فکر سے آگاہ ہوں۔ فرد اور ریاست کے درمیان رابطہ اور ان کے مزاج کے مطابق اقدامات ضروری ہیں۔ ریاست میں ہونے والی تبدیلیاں ان ہی اسباب کا ثمر ہوتی ہیں۔

ورنہ بھولے بھالے اور معصوم عوام کو بیوقوف بنانا کوئی مشکل بات نہیں۔ مگر کیا کریں کہ کوئی کسی کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ میرا ایک شعر ہے ”اس قوم کی حالت کیا بدلے۔ جس قوم میں سارے لیڈر ہوں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments