دوران پرواز 35 ہزار فٹ کی بلندی پر دل بند ہو جانے والی نوجوان لڑکی پر کیا بیتی؟


گزشتہ سال 31 نومبر کو پاکستان میں کوئی پچاس روز گزارنے کے بعد میں امریکہ واپسی کے لیے محو پرواز تھا۔ دبئی ائرپورٹ چھوڑنے کے بعد امارات ائر لائنز کی دیو ہیکل ائر بس 320 کی خوش شکل فضائی میزبانیں اور کریو ممبرز مسافروں کو ڈنر سرو کرنے کے بعد بیک اینڈ پر ٹولیوں کی صورت میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

اس سمے پینتیس چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کی آب فالتو لائٹس بجھا دی گئی تھیں۔ زیادہ تر مسافر نیند یا پھر غنودگی کے عالم میں تھے۔ کچھ اپنی پسند کی موویز دیکھنے اور کئی اپنے لیب ٹاپس یا فونز پر جھکے ہوئے تھے۔

باتھ کے لیے دو ایک بار میں نے جہاز کے پچھلے اور اگلے حصے کی جانب جاتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے جہاز میں مجھے کتاب کہیں بھی دکھائی نہ دی۔ میں بھی اپنی من پسند پنجابی مووی ”نکا ذیلدار“ کا پارٹ تھری دیکھنے میں مصروف تھا۔

ایسے میں جہاز کے شور کے باوجود کسی خاتون کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ جو اپنے آٹھ نو سال کے بچے کو سانس کم آنے کے باعث مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ جہاز میں کھلبلی سی مچ گئی دو ایک ائر ہوسٹس اور کریو آواز کی جانب دوڑے۔

بچے کو خالی سیٹوں پر لٹا کر ابتدائی طبی امداد دی جانے لگی۔ دو تین منٹ کے بعد ہی اناؤنسمنٹ کی گئی کہ اگر فلائٹ میں کوئی ڈاکٹر موجود ہے تو بچے کی مدد کرے۔ دو تین لوگ اٹھے، جو یقیناً ڈاکٹر ہوں گے اور بچے کو چیک کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں بچے کو آکسیجن کا ماسک لگا دیا گیا۔

یہ سارا عمل چونکہ ہماری سیٹ سے دو چار سیٹیں آگے ہو رہا تھا اس لیے ہم بہتر طریقے سے مشاہدہ کر سکتے تھے۔

ساتھ ہی ایک ائر ہوسٹس کسی کو فون ملا کر بات کرنے لگی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اسے کسی اور شخص سے تھرو کر دیا گیا۔ مجھے یہی لگا کہ وہ گراؤنڈ پر کسی ڈاکٹر سے گفتگو کر رہی ہے۔ وہ بچے کا بلڈ پریشر، پلس، ہارٹ بیٹ وغیرہ سمیت دیگر علامات بتا رہی تھی۔ جواباً کوئی اسے ہدایات کے ساتھ ٹریٹمنٹ کے متعلق بتا رہا تھا۔

تقریباً تیس چالیس منٹ کے اندر اندر سب کچھ نارمل ہو چکا تھا۔ بچہ اب قدرے بہتر تھا۔ دونوں ڈاکٹر واپس اپنی اپنی نشستوں پر جا کر بیٹھ چکے تھے۔ میں جان بچانے والے ان مسیحاؤں کو اپنی سیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے عجب سرشاری اور تشکر آمیز نظروں سے دیکھا۔

میں نے محسوس کیا کہ جہاز کے میزبان عملے کے لیے یہ ایک نارمل اور روٹین کی بات تھی۔ کسی قسم کی نروس نیس یا بے جا افراتفری کا ماحول نہیں نظر آیا۔ تاہم یہ خیال مجھے بار بار آتا رہا کہ کروڑوں اربوں ڈالرز کی ملکیتی ائر لائنز آخر فلائٹس کے لیے اپنے ڈاکٹرز کیوں بھرتی نہیں کرتیں؟

اوبر کے ساتھ کام کرتے ہوئے آپ کو بڑے کام کی معلومات فراہم کرنے والے مسافروں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے مین ہیٹن سے جان۔ ایف۔ کینڈی ائرپورٹ، نیویارک پر ڈراپ کرنے جاتے ہوئے جہاز کے ایک سینئر پائلٹ سے گفتگو کا موقع ملا۔ تو میں نے ان سے یہی سوال کیا تھا کہ آخر ائر لائنز اپنے ڈاکٹرز کیوں بھرتی نہیں کرتیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ”کبھی ایسا ہوتا تھا مگر اب ایسی کوئی پریکٹس نہیں ہے۔ فلائٹس میں تعینات دو تین کریو ممبرز میڈیکلی ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ گراؤنڈ پر ساری ائر لائنز کے انتہائی قابل فزیشن ڈاکٹرز چوبیس گھنٹے ان کے پینل پر ایمرجنسی صورت میں آن کال ہوتے ہیں جو مریض کی کریو یا مسافر ڈاکٹر کے ذریعے ٹریٹمنٹ تجویز کرتے ہیں۔ کسی انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں فلائٹس کسی قریبی ائر پورٹ پر بھی اتار لی جاتی ہیں۔

تاہم اس کا حتمی فیصلہ جہاز کا پائلٹ جہاز یا گراؤنڈ پر موجود ڈاکٹرز یا اپنے میڈیکلی ٹرینڈ کریو ممبرز کی سفارشات کی روشنی میں ہی کرتا ہے۔ چھپن سال پہلے تشکیل پائے ”ٹوکیو کنونشن“ کی روشنی میں دوران پرواز سارے معاملات میں پائلٹ ہی آل ان آل ہوتا ہے۔ گویا اس کی حیثیت ”کمانڈر ان چیف“ کی ہوتی ہے ”۔

رواں ہفتے دوران پرواز اس مسئلے سے متعلقہ ایک بڑی شاندار اور کامیابی کی کہانی ایک پاکستانی امریکن کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر کاشف ندیم چوہدری نے اپنے ٹویٹر پر شیئر کی ہے۔ ڈاکٹر کاشف امریکی ریاست پنسلوانیا کی یونیورسٹی آف پٹسبرگ میڈیکل سنٹر (UPMC) ولیمز پورٹ میں ڈائریکٹر آف کارڈیک الیکٹرو سائیکالوجی ہیں۔

انہوں نے اس واقعہ کو ”35 ہزار فٹ کی بلندی پر دل کا دورہ“ کا عنوان دیتے لکھا ہے کہ ”آج دن کے پہلے پہر فینکس جانے والی ہماری پرواز میں، ایک 20 سالہ نوجوان خاتون کو دل کا دورہ پڑا۔ جہاز میں موجود مسافروں کی جانب سے خوف و ہراس اور چیخوں کے بعد فوری طور پر طبی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ میں اضطراب کی کیفیت میں مریض کی سیٹ کی طرف بھاگا۔ جا کر دیکھا، تو وہ بے حس و حرکت، ایک جانب گری ہوئی پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں پیچھے کی جانب دھنس ہوئی تھیں۔

میں نے اس کی گردن پر دل سے دماغ کو خون سپلائی کرنے والی ”کیروٹیڈ شریان“ اس کی کلائی سے ”ریڈیل پلس“ چیک کیں۔ مگر وہاں کچھ بھی مثبت نہیں تھا۔ ہم اسے فوری طور پر ”ایسل سیٹ“ پر لے گئے اور فوری طور پر اس کا ”سی پی آر“ شروع کر دیا۔ ہم نے فوری طور پر ایک ٹیم بنائی۔ میری ڈاکٹر اہلیہ نائیلہ سحرین اور جہاز میں موجود ایک اور ماہر امراض قلب نے جلدی سے کاموں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔

جب میں CPR کر رہا تھا تو دوسرے ماہر امراض قلب نے طیارے کی ابتدائی طبی امدادی کٹ سے (AED) حاصل کی اور اسے مریض پر اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ جبکہ نائیلہ نے مریضہ کے ساتھ سفر کرنے والے اس کے دوستوں سے اس کی ہسٹری اور دیگر معلومات حاصل کرنی شروع کر دیں۔

شکر ہے کہ ڈیڑھ منٹ کے سی پی آر کے بعد مریضہ کی پلس واپس آنی شروع ہو گئی۔ اور اس میں ہوش میں آنے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ ٹھیک دس منٹ کے بعد وہ سہارے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھنے کے قابل ہو گئی، اور ہم اسے واپس اس کی سیٹ پر لے آئے۔

ہماری شیئر کی جانے والی مشترکہ تشخیص کے بعد پرواز کو قریبی ائر پورٹ پر اتار لیا گیا۔ پرواز کے بروقت اتارے جانے کے بعد وہ بہتر دکھائی دے رہی تھی۔ ایمرجنسی میڈیکل سروسز ٹیم نے اس کی ابتدائی ای کے جی کی، جو کہ تسلی بخش آئی۔

ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کہ ہماری کاوش کا مثبت اور اچھا نتیجہ نکلا۔ اس دوران دوسرے میڈیکل پروفیشنلز، جنھوں نے مدد کی اور فلائٹ کریو ممبرز کی اسسٹنٹ کے لیے بھی شکرگزار ہوں۔

اس کہانی کو شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ایمرجنسی حالات میں ہم نے کیا اور ایک شخص کی جان بچائی۔ آپ بھی کسی مریض کا سی پی آر (Cardiopulmonary Resuscitation) کر کے اس کی جان بچا سکتے ہیں۔

کارڈیک اریسٹ ”یعنی دل کے دورے یا ہارٹ فیل ہو جانے کی صورت میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بروقت اور موثر طریقے سے کیا گیا سی پی آر زندگی اور موت کے درمیان فرق ڈالتا ہے۔

برائے مہربانی! سبھی سی پی آر کرنا سیکھیں۔ آپ کسی دن ممکنہ طور پر کسی کی جان بچانے کی پوزیشن میں ہو سکتے ہیں، اور وہ ممکنہ طور پر آپ کا کوئی پیارا بھی ہو سکتا ہے ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments