یہی چراغ جلیں گے تو چھٹے گا اندھیرا


اوائل مارچ کی اس شفق جھلملاتی شام میں گورنمنٹ کالج لاہور کی گوتھک طرز کے برج اور عمارتوں کی چوٹیاں طلائی رنگوں میں نہاتی کس قدر فسوں خیز لگتی تھی۔ باد بہاراں اس کے بوٹوں اور سبزہ زاروں پر تیرتی پھرتی نوخیز چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتی خوبصورت لگتی تھی۔ اس عظیم الشان درسگاہ میں آنے کا مقصد RIWAیعنی Ravians Iqbalians Welfare Amityکے بینر تلے اسی کالج کے 1970 بیچ کے ایک بے حد ہونہار راوین جناب زاہد شمسی کی کتاب ”زندہ لمحے“ کی تقریب رونمائی میں شرکت اور اس فلاحی تنظیم کی گولڈن جوبلی کے بارے جاننے کا عزم بھی تھا۔

بخاری آڈیٹوریم کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مزے کی بات کہ یہاں موجود اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے 1970 کے بیج کے وہ لوگ تھے جو ملک کی اہم کلیدی پوسٹوں پر رہے اور جنہوں نے زاہد شمسی صاحب کی تجویز کردہ RIWAتنظیم کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا بلکہ ہر ہر محاذ پر اسے سپورٹ کرنے کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ اس کے اہم ترین مقاصد میں دل کھول کر حصہ لیا اور اسے مزید فعال کرنے کے عزائم کا اعادہ بھی کیا۔

1۔ ضرورت مند طلباء کی مالی معاونت کرنا ہے۔ طالب علم کو احسان مندی کا احساس دلائے بغیر 2۔ کالج کے کم آمدنی کے حامل ملازمین کے بچوں کو مفت تعلیم دلوانا۔ 3۔ یونیورسٹی میں ”اقبال میوزیم“ کی تعمیر کرنا

4۔ کالج اور ہوسٹل کی عمارات کو تحفظ مہیا کرنا۔

یہ اس تنظیم کی اعلیٰ کارکردگی ہی تھی کہ وائس چانسلر جناب اصغر زیدی صاحب نے خواہش کی کہ کتاب کی تقریب یہیں ہوگی۔ کہ اس اور شمسی صاحب کی دیگر کتب کی آمدنی بھی اسی تنظیمی فنڈ میں جانی تھی۔

مقررہ وقت پر ہال میں سبھوں نے نشستیں سنبھال لی تھیں۔ کاش یہ عادت پوری قوم میں سرایت کر جائے۔ حسرت سے میں نے سوچا۔ ہال میں جدھر نظریں اٹھتیں، بردبار متین اور سنجیدہ چہرے نظر آتے تھے۔

سٹیج پر بیٹھے مقررین کو بہت توجہ اور کامل یکسوئی سے سنا گیا۔ جسٹس احمد فاروق نے کتاب کے حوالے سے خوبصورت یادیں شیئر کیں۔ تاہم ایک بہت اہم نقطہ بھی اٹھایا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے نام سے یہ درسگاہ اپنے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ وقت کی تاریخ محفوظ کیے ہوئے ہے۔ اب اس کے ساتھ یونیورسٹی کا لاحقہ لگانے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ یہ غلط رجحان ہے کہ آپ اداروں کے، شہروں کے نام تبدیل کرتے جائیں۔ زیدی صاحب نے میری تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں اسے اس کی پرانی حیثیت دلانے کے لیے ہر قسم کی قانونی مدد دینے کے لیے تیار ہوں۔

سب سے اہم خطاب جناب اصغر زیدی صاحب کا تھا۔ انھوں نے زاہد شمسی صاحب کی کتاب ”زندہ لمحے“ اور ”RIWA“ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تعلیمی معیار کی تنزلی کی بات کرتے ہوئے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ ان کی انتظامیہ نے گزشتہ سال سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انھیں داخلہ انٹری ٹیسٹ پر دینا ہے۔ بچہ بورڈ سے جتنے مرضی نمبر لے آئے۔ ان کے اس پرعزم فیصلے پر جی چاہا تھا کہ اٹھ کر سلوٹ ماروں۔

کتنے دکھ یاد آئے تھے مجھے۔ سچی بات ہے۔ اس کمرشل ازم نے جہاں زندگی کے سبھی شعبوں کو متاثر کیا وہاں سب سے زیادہ نقصان تعلیم کو پہنچایا ہے۔ ٹیوشن مافیا کی ایک نئی کلاس نے جنم لے لیا ہے۔ ماڑے موٹے سکولوں اور کالجوں سے لے کر اعلیٰ ترین سکولوں جن میں اے، او لیول اور پروفیشنل کالجوں یونیورسٹیوں میں داخلے کے ٹیسٹوں کی تیاری کے مراحل شامل ہیں۔ اگر استاد چھوٹے لیول کے ہیں تو براہ راست دعوت نامہ اور تقاضا نامہ دونوں گوش گزار کیے جاتے ہیں کہ میرے پاس شام کو ٹیوشن پڑھنے آ جاؤ۔

بڑے لیول کے اساتذہ کے تو ماشاء اللہ کیا ہی کہنے۔ وہ تو اسباق کی اصل گونڈھیاں کلاسوں میں کھولتے ہی نہیں۔

مشکل اور پیچیدہ چیزوں کی وضاحت اور فہم کے لیے خیر سے اکیڈمیاں کھلی ہوئی ہیں۔ ہزاروں کی فیس اس پر درمیانی فاصلوں کی دوریاں، ٹریفک کے معاملات، بچوں کی زندگیاں تو جو عذاب بنی ہوئی ہیں وہ اپنی جگہ۔ والدین بیچارے جس چکی میں پس رہے ہیں وہ صورت بڑی قابل رحم ہے۔ معاشرتی طبقات کے درمیان ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ نچلی ان پڑھ کلاس انگلش میڈیم کے پیچھے دیوانی ہزار روپے والے سکول سے بھی توقع کرتی ہے کہ وہ ہر کتاب انگریزی میں پڑھائیں۔ بیچاروں کا بس نہیں چلتا کہ کیسے ٹپوسی مار کر چھت پر جا بیٹھیں۔ کچھ ایسے ہی مالیخولیے میں نچلا متوسط اور متوسط طبقہ مبتلا ہے۔

بڑے طبقے کی تو خیر بات ہی کیا۔ اب بچوں کی اخلاقیات کا جو کباڑا ہوا ہے اس کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ تربیت جیسا اہم پہلو گھروں میں نظرانداز سکولوں میں نظرانداز۔

ہمیں یاد ہے ہمارے وقتوں میں ٹیوشنوں کا کہیں رواج نہ تھا۔ رواج کی بھی بات چھوڑیں اسے انتہائی ناپسندیدگی کے زمرے میں سمجھا جاتا تھا۔ ٹیوشن پڑھنے والی لڑکی کا شمار نالائق لڑکیوں میں ہوتا تھا۔ تب شاید لوگوں میں کمپلیکس نہیں تھا۔ انگریزی کا بھی کوئی اتنا ہوکا نہ تھا۔ ٹاٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے اونچی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔

اب مصیبت تو یہ آن پڑی کہ بیج میں ایسا دور بھی آیا کہ جب جدی پشتی ہنرمندوں نے اپنے پیشے کو سیکھنے اور اسے کچھ جدت دینے کی بجائے نئے پیشے اپنانے اور باہر کے ملکوں میں محنت مزدوریوں کو ترجیح دی۔

جناب بھٹو کے زمانے میں محنت کشوں کی ایک کثیر تعداد مشرق وسطیٰ میں مزدوری کے لیے گئی۔ باہر سے آنے والا یہ پیسہ ملک کے سماجی ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ پیسہ ہونا چاہیے جیسی سوچ نے اخلاقیات کے ڈھانچے کو متاثر کیا۔

استاد جیسا معزز پیشہ متاثر ہوا۔ یہاں ان لوگوں کی بھرمار ہوئی جنہیں کہیں پذیرائی نہ ملی۔ وہ اس شعبے میں آ گئے۔ انگلش میڈیم نے زور پکڑ لیا تھا۔

اب تیزی سے امیر ہوتی ہوئی کلاس کے پاس وقت نہیں ہے۔ اپنے بچوں کی گرومنگ کے لیے مہنگے سکول موجود ہیں اور کیمرج آکسفورڈ امتحانات کے لیے مہنگی اکیڈمیاں۔

رہا غریبوں کا مسئلہ جن کے پاس پیسہ نہیں مگر خواہشات کا انبار ہے کہ بچوں کو ہنرمند بنانے کی بجائے کلرکوں کی کھیپ تیار کر رہے ہیں۔

میرے مولا کب یہ ارباب اختیار عقل کے ناخن لے گی اور تعلیم کے شعبے میں انقلابی قدم اٹھائے گی۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments