پیپلز پارٹی کی تیسری اننگز اور ملکی و عالمی سیاسی منظر نامہ


بلاول بھٹو زرداری نے اپنی بہن آصفہ بھٹو زرداری کا ہاتھ پکڑ کر 27 فروری کو مزار قائد سے عوامی مارچ کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی سیاست میں تیسری اننگز کا آغاز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی سیاست کا آغاز تاشقند میں ہندوستان کے ساتھ مذاکرات میں صدر ایوب کے موقف سے اختلاف سے کیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے لاہور میں ایک بڑے عوامی استقبال سے دوسری اننگز کا آغاز کیا تھا۔

پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ 25 سال بے آئین رہنے کے بعد اس ملک کا آدھا حصہ اس سے جدا ہوا مگر باقی ماندہ حصے میں آج تک آئین اور قانون کی بالا دستی کو کبھی اشرافیہ نے تسلیم نہیں کیا۔ وقفے وقفے سے آئین اور قانون پر شب خون مار کر ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی رہی جو بہت جلد ہی اپنے انجام کو پہنچتا رہا۔ سیاسی جماعتیں قانون اور آئین کی بحالی کی جدوجہد کرتی رہی جس کی وجہ سے اس ملک کا سفر ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی جانب رہا اور نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی طور پر ملک آج پہلے سے زیادہ مخدوش حالات کا شکار ہے۔

1977 ء کے بعد قائم کیے ہائبرڈ نظام کی ناکامی اور ضیاالحق کی موت کے بعد 1988 ء میں بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے بنایا گیا اسلامی جمہوری اتحاد جب مسلم لیگ نون کی شکل میں پنجاب کی جماعت بن گیا تو مقتدر حلقوں نے ایک قومی جماعت تشکیل دینے کی کوشش کی جس کا نتیجہ پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں سامنے آیا۔

مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ پاکستان کے لئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والا خوبرو نسلی طور پر پشتون عمران خان جس کے خاندان نے مشرقی پاکستان سے سے لاہور ہجرت کی ہے سب کے لئے نہ صرف سانجھا ہے بلکہ ہیرو بھی ہے۔ عمران خان کو بطور سیاسی لیڈر متعارف کرانے کے لئے پرویز مشرف کے دور میں بڑی محنت کی گئی جب ملک کی مقبول قیادت کی جلاوطنی کی وجہ سے ایک خلاء پیدا ہوا تھا۔ مشرف کی عمران خان سے دوستی بہت گاڑھی رہی مگر وہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے پر راضی نہ تھے۔ عمران خان کی فطرت سے آگاہ مشرف شاید اس کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔

مشرف کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار میں مقتدر حلقوں نے عمران خان کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ احتساب کے نام پر برسر اقتدار جماعتوں کے ہاتھ پیر باندھ کر عمران خان کو کھل کر کھیلنے آزادی بھی دی۔ انتخابات میں بھرپور کوششوں کے باوجود بھی حکومت بنانے کی حسب ضرورت تعداد پوری نہ ہو سکی تو جہاز بھر بھر کر منتخب ممبران سے اکثریت بنوائی گئی اور ایک بار پھر ہائبرڈ نظام قائم کیا گیا۔

عمران خان ایک کھلاڑی تھا جس کی زندگی کا پورا تجربہ کرکٹ کے میدان تک محدود تھا۔ کرکٹ کا یہ کھلاڑی تاریخ سے صرف فلموں، ڈراموں اور ناولوں سے ہی متعارف تھا اس لئے اس نے بھی آئین اور قانون سے ہٹ کر اپنی شخصیت کو ہی نظام کا محور بنایا۔ اس کی ہر بات میں سے شروع ہو کر تم پر ختم ہوتی رہی۔ مکالمہ میں منطق سے زیادہ گالی اور حکمرانی میں ضابطہ سے زیادہ طاقت پر انحصار رہا۔ لوگوں کو انصاف دلانے کے نعرے پر وجود میں آئی سیاسی جماعت نے انصاف کے بجائے ذاتی عناد اور انتقام پر توجہ دی جس کی وجہ سے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹ گئی اور ملک مہنگائی، بے روزگاری اور کساد بازاری کے گرداب میں آ گیا۔

مقتدر حلقوں نے جب محسوس کیا کہ ہائبرڈ نظام کی ناکامی کا الزام ان پر بھی آنے لگا ہے تو غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف نے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا تو عین اس وقت کو بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کی تیسری سیاسی اننگز کے باقاعدہ آغاز کے لئے چنا۔ پیپلز پارٹی نے حکومت پر عدم اعتماد کی عوامی پذیرائی کے لئے کراچی سے گلگت بلتستان تک اپنی رابطہ مہم کو عوامی مارچ کا نام دیا جس کا آغاز 27 فروری کو مزار قائد کراچی سے ہوا اور اختتام 8 مارچ کو ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا۔

جس نظم و ضبط کے ساتھ یہ کراچی سے اسلام آباد تک کے مارچ کو منعقد کیا گیا وہ لائق تحسین تھا۔ پورے سفر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی کہیں سے کوئی شکایت ملی۔ بسوں، ویگنوں، گاڑیوں اور اپنے کنٹینروں میں سفر کرنے والے ایک طریقہ کار اور مربوط نظام کے تحت چلتے رہے۔ جگہ جگہ پیپلز پارٹی کی مقامی تنظیم نے مارچ کے شرکا کے لئے کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ پاکستان کے تمام صوبوں، قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک قافلے میں ہمسفر تھے جس کا نعرہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کا استحکام تھا۔

بلاول بھٹو اور اس کی بہن نے عوامی ریلیوں سے ہر جگہ خطاب بھی کیا۔ اس سے پہلے بلاول نے گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی انتخابی مہم چلائی جو عملی سیاست سے پہلے ان کی نیٹ پریکٹس تھی۔ کراچی سے اسلام آباد تک کے اس مارچ نے بلاول کو اپنے کارکنوں سے مزید قریب ہونے، جماعت کی تنظیم کو قریب سے دیکھنے اور سیاست کی مقامیت کو سمجھنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جس سے یقیناً ان کو فائدہ ہوا ہو گا۔

اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز میں جب پیپلز پارٹی اپنی تیسری اننگز کا آغاز کر رہی ہے تو اس وقت دنیا کا سیاسی منظر ایک بار پھر بدل رہا ہے۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا ہے جس پرنیٹو میں شامل امریکہ اور مغربی ممالک سخت ناراض ہو کر اقتصادی پابندیاں لگا رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے عین یوکرائن پر اعلان جنگ کے وقت روس کے صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کر کے خود کو اس کا حامی بنا دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کا خیال ہے کہ وہ غیر جانب دار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ رہا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہ چین اور روس کے بلاک میں شامل ہوا ہے۔

پاکستان روز اول سے ہی نہ صرف مغرب اور امریکہ کے بلاک میں رہا ہے بلکہ غیر نیٹو ممبر اتحادی کے طور پر روس کے خلاف جنگ بھی لڑتا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس دفاعی ساز و سامان امریکہ اور مغرب سے خریدا ہوا ہے جس کے فاضل پرزے بھی ان ہی ممالک سے دستیاب ہیں۔ پاکستان کے نئے عالمی سیاسی منظر میں روس کے ساتھ کھڑا ہونے کے ملکی دفاعی صلاحیت پر کیا اثرات پڑیں گے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس پر وزیر اعظم کو شاید زیادہ فکر نہیں۔ پاکستان کی مصنوعات کی مغربی ممالک تک رسائی اور خاص طور پر یورپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ تجارت پر کیا اثرات ہوں گے اس کی بھی حکومت کو فکر نہیں مگر ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں کو بڑی تشویش لاحق ہے۔

داخلی محاذ پر ملک پہلے سے ہی اقتصادی طور بدترین دور سے گزر رہا ہے اور اب وزیر اعظم کے روس کے ساتھ کھڑا ہونے کے بعد خارجی محاذ پر پاکستان مزید تنہائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بدلتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ملک کے لئے ایک دیرپا اور قابل عمل اقتصادی حکمت عملی کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی کی انتہائی سخت ضرورت ہے جو مستقبل کی حکومتوں کے لئے بڑا چیلنج ہو گا۔

بلاول بھٹو کی عالمی پس منظر میں پاکستان کے لئے مواقع اور مقام حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی اور صلاحیت ہی پیپلز پارٹی کی تیسری اننگز کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی۔ بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ بدلتے ہوئے عالمی منظر میں پاکستان کے لئے ایک متوازن پالیسی اور حکمت عملی پر اپنے اپنے موقف کا اظہار کرے اور اس کی پذیرائی کے لئے عالمی اور ملکی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan