عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے مرد


مارچ میں ایک ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ عورت مارچ کے حق میں نعرے اور مخالف نکتہ نظر ہر طرف موضوع بن جاتا ہے۔ ایک طبقہ ہر صورت میں اس مارچ کو کامیاب کرنے اور دوسرا اس عورت مارچ کے مد مقابل اپنی دکانداری سجاتے ہوئے مارکیٹ میں نئے برانڈ کے احتجاج لانے پر مصر ہے۔ بہرحال ہم ہر صورت میں عورت کی تعلیم، سماجی و معاشرتی خود مختاری، اس کی رائے کا احترام، حقوق کا خیال رکھنا اور اسے معاشرے کا ایک اہم فرد گردانتے ہوئے برابری کی سطح پر عزت و احترام سے بات کرنے کے قائل ہیں۔

اس وقت عورت مارچ کے حامی اور مخالفین کے نکتہ نظر کو زیر بحث لانا مقصود نہیں۔ لیکن اس ماہ مارچ میں عین عورت مارچ سے تین دن قبل ایک مظاہرہ ایسا بھی ہوا ہے جس نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عورت کی انتہائی حد تک تذلیل کرنے والے، اس کی خود مختاری پر ڈاکا ڈالنے والے، اس کے حقوق غصب کرنے والے، اسے پاؤں کی جوتی گرداننے والوں کو اپنا سیاہ چہرہ چھپانے کے لئے آخر عورت کا لباس ہی کیوں ملتا ہے۔ پشاور کے ایک کلینک میں ایک برقع پوش ”خاتون“ داخل ہوتی ہے جو بہت تکلیف میں ہونے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے موقع پر موجود ڈاکٹر محمد شاہد احمد صاحب کے قریب ہوتی ہے اور محدود فاصلے سے ڈاکٹر صاحب کے سر پر فائر کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر موقع پر شہید ہوجاتا ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی خاتون نہیں تھی بلکہ ایک سیاہ رو بدبخت تھا جس نے اپنے سیاہ کارنامے کو چھپانے کے لئے کسی معصوم کی طرح نقاب اوڑھ رکھا تھا۔

عورت کے لباس میں چھپ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور قانون کی نظروں سے خود کو بچانے کی کوشش کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اب شاید اس طرح کے واقعات زیادہ ہونے لگے ہیں۔ صرف 2022 میں ہی دو تین خبریں ایسی ہیں جن میں یہی عمل دہرایا گیا ہے کراچی جناح ہسپتال میں ایک وارڈ میں گھس کر دو ڈاکٹروں سے الجھ کر اور انہیں زخمی کر کے بعد ازاں گرفتار ہونے والا ”برقع پوش خاتون“ دراصل اسی وارڈ میں ایک نرس کو قتل کرنے کے لئے، آئی تھی / آیا تھا۔

پھر 6 فروری 2022 کے روزنامہ جنگ کے مطابق ”پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنوبی وزیرستان میں گاؤں سرواکئی میں خفیہ اطلاعات پر آپریشن کیا گیا جس میں کالعدم ٹی ٹی پی کا دہشت گرد اللہ نور پکڑا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دہشت گرد اللہ نور برقع پہن کر فرار کی کوشش کر رہا تھا تاہم پکڑا گیا۔“

حالیہ تاریخ میں اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کا واقعہ تو ابھی تازہ ہے۔ جب ہزاروں معصوم جانوں کی زندگی داؤ پر لگانے، انہیں بند گلی میں دھکیلنے کے بعد ”مرد مجاہد“ اسی طرح برقع پوش عورت کی مشابہت اختیار کیے سر نیہوڑے کسی محفوظ منزل کی تلاش میں تھا۔ ایسے مجاہد پھر مرد میدان بن کر میدان عمل میں ڈٹ کیوں نہیں سکتے؟ دوسروں کی زندگیاں سستی اور ان کی بہت قیمتی ہے کیا؟ بعد ازاں اس برقع پوش کو قومی ٹی وی پر دوبارہ برقع پہنانا اور کیمرے کے سامنے گھونگھٹ اٹھانے پر مجبور کرنا ایک دوسری انتہا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments