گھاٹے کا سودا


’اب بتاؤ کیا خاص بات کرنی ہے جس کے لئے تم نے مجھے بلایا ہے۔ ‘ سونیا نے دھوپ کی ہلکی کرنوں سے چمکتی ہوئی ثمرہ کی بڑی بڑی بالیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’سونیا کیا بتاؤں، میں اس کو چھوڑ رہی ہوں۔ ‘ ثمرہ کا سارہ بوجھ ایک دم اتر گیا تھا۔
’کیا یار؟ سب خیریت ہے نا!‘

’سونیا مجھے تو سلیم میں کوئی خاص اچھائی نظر نہیں آتی۔ یہ تو خود بس ایسا ویسا ہی ہے اور مجھے بھی اپنے جیسا کر دیا، بے وقوفی کی باتیں کرنے والا۔ نہ اس نے زندگی میں اچھے پیسے کمائے نہ کوئی ایسا کام کیا جس پہ مجھے فخر ہو، جس کے بارے میں اپنی سہیلیوں سے سر اٹھا کر بات کر سکوں۔ پتا نہیں یہ کیسے میری زندگی میں آن دھمکا اور اس کی سادہ لوح حرکتوں سے میں اس کی دیوانی ہو گئی۔ اب کوئی زندگی ہے اس کے ساتھ، بالکل بور یار۔

اس کو موسیقی سننے یا بجانے کے علاوہ کوئی شوق نہیں، میں کیا کروں اس کے بینڈ باجے کا۔ میرے تو کان یہ عجیب عجیب سر سن کر پک گئے ہیں۔ پھر ثمرہ نے سونیا کی شربتی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ یار، اب بچے بڑے ہو چکے ہیں، اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو گئے ہیں اب میں نے سوچا ہے کہ اس کے ساتھ کیوں رہوں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اس کو چھوڑ رہی ہوں۔ ‘

میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا کہوں۔ حیران ضرور ہوں میں! ’سونیا گلے میں پڑی ہلکے نیلے رنگ کی چنری کو گانٹھیں دینے لگ گئی۔

’وہ کیوں؟ اپنی رائے تو دے سکتی ہو۔‘
’اچھا، میں سوچ کر بتاؤں گی۔ یہ گڈے گڈی کا کھیل تو ہے نہیں کہ جو منہ میں آئے بک دوں۔ ‘
۔ اگلی ملاقات میں۔
’بہت لشکارے مار رہی ہو! کیا کسی کو ابھی سے ڈھونڈھ لیا ہے؟‘ سونیا مسکرا رہی تھی۔
’سہیلی بھی ملی تو تم جیسی بے حس۔‘ ثمرہ نے ایک ٹھنڈی آہ لی۔
’تم واقعی بے وقوف ہو۔‘ سونیا نے کچھ سنجیدگی اختیار کر لی تھی۔
’تو کیا میں اس کے ساتھ باقی زندگی سڑ سڑ کے گزار دوں! ‘ ثمرہ اپنے پرس میں سے لپ اسٹک نکال رہی تھی۔
’بھئی مجھے تو سلیم میں تھوڑی بہت خوبیاں نظر آتی ہیں۔ ‘
’ہیں! مثلاً؟‘

’وہ نرم دل ہے۔ تم سے محبت کا بر ملا اظہار کرتا ہے۔ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ خود کو صاف ستھرا رکھتا ہے، چست ہے۔ تمہیں پتا ہے کہ اس عمر میں آ کر کئی مرد خود کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور، اور تمہارے رشتے داروں سے محبت سے ملتا ہے۔ ‘

پھر سونیا رک کر بولی۔ ’اور جب تم۔ ‘
’کیا کیا! بولو بولو رک کیوں گئی ہو! ‘ ثمرہ ایک سوالیہ نشان بن گئی۔
سونیا کا چہرہ ایک دم سخت ہو گیا لیکن وہ خاموش رہی۔
ثمرہ خود کو سونیا کے بہت پاس لے آئی۔ ’کیا تمہیں اس طرح کے مرد پسند ہیں؟‘
ہاں کچھ کچھ! میرے خیال میں تم اسے چھوڑ کر غلطی کرو گی۔ ’

ثمرہ نے فوراً دھوپ سے بچنے کی عینک اتاری۔ ’تم ایسے آدمی کے ساتھ ایک ہفتہ گزار کر دیکھو تو پتہ لگ جائے۔ پھر ثمرہ نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے۔ سچ سچ بتاؤ، کیا تمہیں سلیم اچھا لگتا ہے؟‘

’ہاں، ایک دوست کی حیثیت سے اور تم بھی۔‘ پھر سونیا کا ہاتھ اپنی چنری کی طرف گیا۔ ’تم واقعی عقل سے پیدل ہو۔‘ سونیا مسکرا کر بولی

’ثمرہ تم اسے چھوڑ رہی ہو پھر تمہیں کیا کہ کون اس کو پسند کرے یا نا پسند کرے۔ ‘

’میں تو یہ یقین نہیں کر سکتی کہ تم اسے اس حد تک پسند کرتی ہو۔ اپنی سہیلی کے شوہر پہ ڈورے ڈالتی ہو۔‘ ثمرہ مسکارے سے سجی پلکیں تیزی سے چھپکا رہی تھی۔

’یار تم اور تمہارا شوہر دونوں میرے اچھے دوست ہیں۔ ہم دونوں نے جب بھی کوئی بات کی ہے تو تمہارے سامنے ہی کی ہے۔ ثمرہ، تمہارا دماغ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ ‘

’تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے سونیا، پچھتاؤ گی بہت۔ کیا تم بھی اس کے فلسفوں سے ایسے ہی متاثر ہو جیسے میں آج سے تیس سال پہلے ہو گئی تھی۔‘

’ثمرہ بس بھی کرو۔ اچھا سچ سچ بتاؤ کہ کیا تم واقعی اس سے علیحدگی کے لئے سنجیدہ ہو؟ یا ابھی ہوائی گھوڑے دوڑا رہی ہو! ‘ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ ثمرہ کے کندھوں پہ رکھ دیے۔

’یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ حد ہو گئی یہاں تو، یک نہ شد دو شد۔ میں اسے چھوڑ دوں اور تم اسے اپنا لو۔ یہ تو بہت گھاٹے کا سودا ہے۔ ‘ ثمرہ مزید کچھ کہے بغیر گردن جھٹکا کر وہاں سے چلی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments