فوج کو غیر سیاسی بنانا قومی خدمت ہوگی


اسلام آباد کی پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والے واقعہ کے بعد ملک میں پایا جانے والا سیاسی بحران تشدد اور تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے آصف زرداری کو اپنی بندوق کے نشانے پر رکھنے کی بات کہہ کر ایک ناخوشگوار اور ناقابل قبول ہیجان پیدا کیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔

یہ قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے کسی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ اس مقصد کے لئے اتحادی پارٹیوں سے مایوس ہونے اور تحریک انصاف میں پیدا ہونے والے انتشار کے سبب اب ایسے طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے جن کے تحت کسی بھی طرح اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران ایوان میں 172 ارکان لانے سے روکا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے اپنی پارٹی کے ارکان کو ایسے کسی اجلاس سے غیر حاضر رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور سرکاری نمائندے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ اس کے باوجود کوئی ارکان اگر پارلیمنٹ جائیں گے یا اپوزیشن کی تحریک کے حق میں ووٹ دیں گے تو اسپیکر انہیں فوری طور سے نا اہل قرار دینے کی کارروائی کر سکتے ہیں کیوں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت فلور کراسنگ کی اجازت نہیں ہے یعنی کسی پارٹی کے ٹکٹ سے منتخب ہونے والا رکن اگر کسی اصولی معاملہ پر سرکاری پالیسی سے اختلاف کرتا ہے تو وہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے یا پارٹی تبدیل کرنے کا حقدار نہیں ہے۔ البتہ وہ اپنی سیٹ سے مستعفیٰ ہو کر نئے سرے سے کسی نئی پارٹی کے ساتھ انتخاب جیت سکتا ہے۔

حکومت کی بظاہر حکمت عملی یہی ہے کہ اپنی پارٹی کے ارکان کو ووٹنگ میں شرکت سے روکا جائے اور جو ارکان اس کے باوجود کھل کر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے پارلیمنٹ پہنچیں، انہیں اسپیکر ووٹ دینے کی اجازت نہ دیں۔ یہ ایک پیچیدہ قانونی معاملہ ہے جس پر قانون ماہرین مختلف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی پارٹی بھی زبردستی قومی اسمبلی کے ارکان کو کسی اجلاس میں آنے سے روک نہیں سکتی۔ گو یا اگر پارٹی کی واضح ہدایت کے باوجود کچھ ارکان پارلیمنٹ پہنچتے ہیں تو اسپیکر انہیں اپنے عہد کی خلاف ورزی کے الزام میں ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ آئینی ماہرین اگرچہ تسلیم کرتے ہیں کہ فلور کراسنگ غیر قانونی عمل ہے لیکن ان کی یہ رائے بھی ہے کہ پارٹی قیادت کی ہدایت کے باوجود اگر کچھ ارکان پارلیمنٹ جاتے ہیں تو انہیں صرف اس فعل کی بنا پر نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح اسپیکر ایسے ارکان کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر کچھ سرکاری ارکان پارٹی لیڈر کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی حمایت میں رائے دیتے ہیں تو اسپیکر ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو درخواست دے سکتے ہیں کہ قانون شکنی پر ان کی رکنیت ختم کی جائے۔

ایسی صورت میں ایسے ارکان کو نہ تو ووٹ دینے سے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا ووٹ ضائع شمار کیا جائے گا۔ البتہ اسپیکر کو حق حاصل ہے کہ ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو نا اہل قرار دینے کی درخواست بھیجے۔ تاہم اس درخواست پر عمل کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، آئین میں اس بات کا کوئی تعین نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن یہ فیصلہ کتنی مدت میں کرنے کا پابند ہے۔ بعض ماہرین یہ رائے بھی دے رہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کرنے والے حکمران جماعت کے متعدد ایسے ارکان بھی موجود ہیں جو آئندہ انتخاب میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے سال چھے ماہ پہلے رکنیت سے محروم ہونے کا ’رسک‘ لینے پر تیار ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ موجودہ صورت حال میں بدستور عمران خان کا ساتھ دے کر وہ مستقبل میں منعقد ہونے والے انتخاب میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بظاہر حکومت بھی اس صورت حال سے آگاہ ہے۔ وزیر اعظم کی شعلہ بیانی اور بدحواسی اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان پر ان کا یقین متزلزل ہے اور وہ کوئی ایسا سیاسی یا قانونی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح تحریک عدم اعتماد کا راستہ روکا جا سکے۔

تحریک انصاف نے اگر اپنے اسپیکر کے ذریعے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے بعض ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی تو یہ معاملہ عدالتوں میں جائے گا اور یوں تحریک عدم اعتماد کا معاملہ مؤخر ہو سکتا ہے۔ اس وقت یہ عمران خان اور ان کے خیر خواہوں کی بہترین حکمت عملی ہے۔ حالانکہ ایک سیاسی و آئینی عمل کے نتیجے میں پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کر کے یا تو عمران خان سیاسی وقار کا مظاہرہ کریں یا قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو دینے کا اندازہ کر لینے کے بعد مسلمہ جمہوری روایت کے مطابق باعزت طریقے سے استعفیٰ دے کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کریں۔

لیکن خود کو فائٹر کہنے والے عمران خان ان میں سے کسی آپشن پر عمل نہیں کریں گے۔ بدقسمتی سے اسے نہ تو بلند ہمتی کہا جائے گا اور نہ ہی یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ عمران خان صرف قوم کی خدمت کے لئے سیاست کرتے ہیں، اقتدار کا حصول کبھی ان کا مطمح نظر نہیں رہا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان کی تمام تر سرگرمیوں سے صرف یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اس مقصد کے لئے وہ اپوزیشن کے علاوہ اپنی ہی جماعت کے اراکین کو بھی بہلانے یا دھمکانے کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔

اس دوران پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوجی اداروں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے تمام عناصر سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کریں۔ یوں تو پاک فوج کے ترجمان متعدد بار ایسے بیان دیتے رہے ہیں لیکن آج کا بیان خاص طور سے یوں دلچسپی کا باعث ہے کہ اس بیان سے تھوڑی دیر پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ’فوج کا دشمن‘ اور بھارت کا دوست ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس حوالے سے میمو گیٹ اور ڈان لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کی تقرریوں کے متعدد کلپس بھی دکھائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان فوج کی سوچ کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں جب بھی حکومت ملی، انہوں نے فوج کے خلاف سازش کی‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فوج نے آئین پر عمل کرنا ہے اور فوج آئین پر عمل کرے گی۔ پاکستان کے آئین کی اسکیم کے تحت فوج حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر فوج حکومت کے ساتھ نہیں ہوتی تو یہ پاکستان کی آئینی اسکیم کے برعکس ہو گا‘ ۔

آئی ایس پی آر کے فوری بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فواد چوہدری نے ملک میں جاری سیاسی جد و جہد میں فوج کو فریق بنا نے کی جو کوشش کی تھی، فوجی قیادت اس سے متفق نہیں ہے۔ اور اس نے سیاسی لیڈروں کو یہی پیغام دیا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کو ملوث نہ کیا جائے۔ یہ بیان کسی حد تک اپوزیشن لیڈروں کے اس دعوے کی تائید کرتا ہے کہ فوج اس وقت سیاسی کشمکش میں ’غیر جانبدار‘ ہے۔ فواد چوہدری نے حکمران جماعت اور پاکستانی حکومت کے کردار کو خلط ملط کر کے فوج کو اپنا فریق ثابت کرنے کی جو کوشش کی تھی، میجر جنرل بابر افتخار نے اسے ناکام بنایا ہے۔

موجودہ بحران کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں بدستور اکثریت کی حمایت حاصل ہے؟ اگر وہ یہ باٹ ثابت کر دیتے ہیں تو اپوزیشن خود اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گی اور اسے موجودہ حکومت کو آئندہ انتخابات تک قبول کرنا پڑے گا۔ عمران خان کو اس آسان طریقہ کو مشکل راستہ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر انہیں یقین ہے کہ اتحادی بھی ان کے ساتھ ہیں اور ان کی پارٹی میں بھی کوئی افتراق یا ناراضی نہیں ہے تو انہیں غیر ضروری بھاگ دوڑ کر کے اور اشتعال انگیز بیان دے کر اپنی سیاسی پوزیشن کمزور نہیں کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم کے موجودہ طرز عمل سے تو یہ لگ رہا ہے کہ وہ اپنا ہی یہ سلوگن بھول کر کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ شدید گھبراہٹ اور بدحواسی کا شکار ہیں۔ فواد چوہدری جیسے ہمدرد اس تاثر کو قوی کر کے ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے آج کی پریس کانفرنس میں تمام اپوزیشن لیڈروں کو ملک دشمن قرار دینے کی بالواسطہ کوشش کی۔ یہ سیاسی طرز عمل شکست خوردگی اور بدحواسی کی بدترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ موقف ہے کہ نواز شریف اور دوسرے لیڈر فوج کو سیاسی کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ موقف اختیار کرنے کا مقصد فوج کو یہ پیغام دینا ہے کہ اگر تحریک انصاف کمزور ہو گئی اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے علیحدہ کرنے کے اقدامات کرے گی۔

فواد چوہدری نے اپنے تئیں اپوزیشن لیڈروں پو جو الزام لگایا ہے وہ تو عین آئینی تقاضا ہے اور ملکی فوج کسی بھی طرح قومی سیاسی فیصلوں میں حصہ لینے یا ان پر اثر انداز ہونے کی مجاز نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خود پر نامزد پھبتی کا جواب دینے کے لئے متعدد بار یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ ’آرمی چیف میرے نیچے ہے‘ ۔ اب اگر اپوزیشن ’ووٹ کو عزت دو‘ کے سلوگن کے تحت اس دعوے کو کوئی حقیقی شکل دینا چاہتی ہے تو حکومت کو اس پر کوئی اصولی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔

دیگر معاملات کے علاوہ جمعرات کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کا دھاوا اور متعدد کارکنوں کی گرفتاری سے اشتعال اور امن عامہ کی ایک غیر ضروری صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو لوگ عمران خان کو یہ بتا رہے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے حکومت کی دھاک بیٹھ جائے گی اور اپوزیشن خوف زدہ ہو جائے گی وہ نہ تو حکومت کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی ملک میں صحت مند جمہوری روایت کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

بہتر ہو گا کہ ایسے تصادم سے گریز کیا جائے۔ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ ہے، حکومت حوصلہ مندی سے قومی اسمبلی میں اس کا مقابلہ کرے۔ ایک مسلمہ کھلاڑی کے طور پر عمران خان سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ سیاست میں بھی اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ اس کا مقابلہ کر کے ہی کوئی سیاست دان کندن بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments