پاکستان کو اب طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے کیا؟


افغانستان میں طالبان کی حکومت کو آنے کے بعد وقت تیزی سے گزر بلکہ اب تو ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کیونکہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا کچھ وقت پہلے تک تو ہم اس لمکان یا طوالت کو خود طالبان اور ان کے ساتھ ہمسایہ ممالک کی کوئی مشترکہ حکمت عملی سمجھ رہے تھے کہ وہ اسے کسی مناسب موڑ پر لے جاکر ایک حتمی نتیجے تک پہنچائیں گے جس کے بعد افغانستان کے اندر حقیقی خوشحالی کا آغاز ہو گا اور امن کے قیام کے بعد پورے خطے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی زندگی جئیں گے۔

اس ساری طوالت اور خدشات کے موضوع پر بدھ کو پشاور میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے زیراہتمام ایک طویل مذاکرے سے افغانستان میں طالبان کے سابق چیف جسٹس محمد سعید ہاشمی کے علاوہ، ہائی پیس کونسل کے ترجمان مولانا شہزادہ، اشرف غنی کی حکومت میں ڈپٹی ایجوکیشن منسٹر عطا اللہ واحد یار، پاکستان میں افغانستان کے تناظر میں سفارتی معاملات کے مشہور نام اور سابق سفرا عبدالباسط اور ابرار حسین کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور کاروبار کے بڑے ناموں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور صحافیوں نے شرکت کی۔

اس تعارف کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ قارئین کو یہ معلوم ہو کہ اس فورم پر ہونے والی بات چیت افغانستان کے اندر سے تین اہم فریقین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی تمام متعلقہ لوگوں کی تھی جس کو سننے کے بعد کوئی بھی شخص ایک رائے قائم کر سکتا تھا۔

سیمینار کے شروع کے سیشن میں جب حکمران طالبان کی نمائندگی کرنے والے محمد سعید ہاشمی نے اپنی تقریر کا آغاز اس بات سے کیا اور اپنی حکومت کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کا ذکر کیا کہ ”ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پوری دنیا ہمارے خلاف ہو اور صرف پاکستان ساتھ ہو تو ہمیں کوئی مسئلہ تنگ نہیں کر سکتا اور اگر پوری دنیا ساتھ ہو اور صرف پاکستان مخالف ہو تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا“ ان الفاظ نے ہال میں موجود لوگوں کو تالیاں بجانے پر مجبور کر دیا انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ بھی بہت جلد طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا کیونکہ روس، چین سمیت کئی اسلامی ممالک قریب قریب ایسا کرچکے ہیں اور جرمنی و فرانس بھی ان سے رابطے میں ہے بلکہ سعودی عرب اور عرب امارات تو اپنے دفاتر کھول چکے ہیں۔

اشرف غنی کے دورحکومت میں افغانستان کے اندر امن کے لئے کوشش کرنے والی ہائی پیس کونسل کے ترجمان مولانا شہزادہ کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت کو جلد تسلیم نہ کیا گیا اور معاملات کو ٹریک پر نہ لایا گیا تو خدانخواستہ افغانستان ایک بار پھر کسی اور خانہ جنگی کا شکا رہو سکتا ہے اس لئے پاکستان اور ہمسایوں کو مل کر اس قضیے کا کوئی حل جلدی نکالنا چاہیے۔ سابق دور حکومت میں وزارت تعلیم کی اہم پوزیشنز پر کام کرنے والے عطا اللہ واحد یار کا کہنا تھا کہ افغانستان نے گزشتہ دور حکومت میں ترقی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ جاری رہتا تو بہتر نتائج مل سکتے تھے۔

مقررین کے ان چند فقروں کے لکھنے کا مقصد ایک ہی ہے تاکہ ہمارے قارئین کو معلوم ہو سکے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں افغانستان میں لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے وہی پر یہ بھی معلوم رہے کہ پاکستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد جو اطمینان آیا تھا وہ بھی اب آہستہ آہستہ خدشات اور خوفزدگی میں بدل رہا ہے صورتحال شاید اتنی پریشان کن نہ بھی ہوتی لیکن روس اور یوکرین کے تنازعے کے جنم کے ساتھ ہی جس طرح افغانستان ایک مسلسل پس منظر میں چلا گیا ہے اس نے اس خدشے کو ہوا دے دی ہے کہ اب تو شاید افغانستان کے تسلیم ہونے کا معاملہ مزید طویل یا موخر ہو جائے جس کا اظہار پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے اپنے خیالات کے دوران کیا۔

انہوں نے کھل کر افغانستان کے معاملے پر دنیا، خطے اور خصوصاً پاکستان کی پالیسیوں میں کمزوریوں کا اشارہ کیا اور اس کے برے نتائج پر بھی روشنی ڈالی بلکہ ایک قدم آگے جاکر تو انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر خطے میں یہی صورتحال رہی تو طالبان حکومت کے تسلیم ہونے کا معاملہ شاید دو سال مزید بھی لٹکا رہے۔ پاکستان کی جانب سے طالبان حکومت کو خطے کے ساتھ تسلیم کرنے کی حکمت عملی بھی ان کی تنقید کی زد میں رہی اور کہا کہ ایسا کر کے پاکستان نے اپنے ہاتھ باندھ لئے ہیں جو بہت سے مسائل کو جنم دے سکتا ہے انہوں نے کہا کہ یوکرین میں مصروف ہونے والے روس کے لئے اب اس معاملے میں کوئی فوری کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہو گا اس لئے پاکستان، چین اور ایران کو مل کر کوئی سہ فریقی حل نکالنا چاہیے اور افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔

پاکستان کے دوسرے سابق سفیر ابرار حسین نے سلائیڈز کے ذریعے طالبان کو دستیاب بہتر پوزیشن، مسائل اور مشکلات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اپنے سے پہلے کی حکومتوں پر سبقت حاصل ہے کہ ان کے مقابلے میں طالبان کی حکومت پورے افغانستان پر یکساں موثر طریقے سے قائم ہے اور جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں جو افغانستان میں 15 اگست سے پہلے کا ایک سب سے بڑا مسئلہ تھا اس لئے ہمسایوں کو اب طالبان کی حکومت کو بلاتاخیر تسلیم کر دینی چاہیے اور ایسا نہ ہوا تو افغانستان میں بننے والے مسائل کی مشکلات سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔

شرکا نے پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر افغانوں کے لئے بہتر انتظامات پر زور دیا اور کہا کہ یہ مشکلات افغانوں کے ذہنوں پر انتہائی برے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔

پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ باتیں ہزار لیکن سرا ایک، کہ اب اگر افغانستان کی اس نئی حکومت کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو افغانستان کے اندر جو صورتحال بنے گی اسے کنٹرول کرنا اور اس کے اثر سے بچنا کسی بھی مقامی، قومی اور بین الاقوامی فورس کے لئے ممکن نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments