ملکی سیاست کی باولی ہنڈیا

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ملکی سیاست کی باولی ہنڈیا اس قدر کھد بد کھد بد پکی کہ اب اُبل کر کناروں سے باہر آ رہی ہے۔ دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی ہے۔ کالی دال کھانے کو تیار ہو جائیے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے قیام کے ابتدا ہی سے ملکی سیاست بین الاقوامی سیاست سے اس قدر گتھ چکی ہے کہ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ دراصل عالمی دائیں اور بائیں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ہمارا اپنا دائیاں اور بائیاں کہاں ہے ؟ کچھ خبر نہیں رہی۔ بین الاقوامی سیاست میں جس تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے ملکی سیاست میں بھی اسی قدر تیزی ہے۔

حکومت رہے یا جائے آپ کے میرے حالات بدلنے والے نہیں، منگو کوچوان کی طرح ہمیں زیادہ پھدکنے پہ اب بھی کوتوالی جانا پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ ملک میں جو شغل لگا ہے اسے دیکھتے رہیے اور ہنستے رہیے۔

گئے وقتوں کے سیاستدان، لسانی، نسلی، نظریاتی، فسادی قسم کی سیاست کرتے تھے۔ لوگوں کو لوگوں سے لڑواتے، سر پھٹواتے اور حکومت کیا کرتے تھے۔ مگر آج سیاست ایک ایسی تفریح بن چکی ہے جس میں سب چپراس لیے ایک دوسرے پہ جگتیں کس رہے ہیں اور کھلی اڑا رہے ہیں۔

ہم پر جس طرح بین الاقوامی قوتوں کا سایہ رہا اس سے اور تو جو کچھ ہوا سو ہوا پر سیاست سے عوام کا دل اور اعتماد دونوں ہی اٹھ گئے۔ رہی سہی کسر، بلائے گئے، بنائے گئے، سرکس سے مفرور نام نہاد سیاستدانوں نے پوری کی اور یوں ہم سیاست کے عہد شغلیہ میں داخل ہوئے۔

تحریک عدم اعتماد، کسی بھی ملک کی سیاست میں ایک اہم موڑ ہوتی ہے لیکن ہمارا یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک لطیفہ سامنے آ رہا ہے اور سوائے ہنسنے کے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

وزیراعظم صاحب کو کون کچھ کہہ سکتا ہے؟ ان کا مخصوص طرز گفتگو جسے محتاط ترین الفاظ میں بھی جو کہا جاتا ہے وہ یہاں درج کرنا مناسب نہیں۔

صرف ایک بات کہنا چاہوں گی کہ چپڑاسی ہونا گالی نہیں۔ محنت سے کما کے کھانے والا چپڑاسی ہمارے نزدیک بہت معزز ہوتا ہے۔ کاش آپ سمجھ سکتے کہ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور لفظ چپڑاسی کو گالی بنانا وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔

حالات گھنٹوں میں بدل رہے ہیں۔ یہ گھنٹوں میں بدلے ہوئے حالات نسلوں تک محیط ہوتے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کی گھن گرج سے کہانی کے کچھ اور پہلو بھی وا ہوتے ہیں لیکن ایسے باب ناول بیچنے کے لیے پبلشر کی فرمائش پر بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔

تحریک انصاف تین سے چار ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اتحادی الگ پوٹلیاں، بغچے، خورجیاں اور گتھلیاں سمیٹے ہواؤں کا رخ دیکھ رہے ہیں اور مشہور زمانہ ایک صفحہ، تیز ہواؤں میں پھڑ پھڑا رہا ہے۔

حامد میر صاحب کی واپسی، ایک مخصوص شخصیت کی کہیں سے روانگی، پنجاب میں تبدیلی کی ضد، تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم کا خارجہ پالیسی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات کو جلسوں میں لے آنا، اشارے تو سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں۔ مگر پھر وہی بات ‘منگو کوچوان کو کیا ملے گا؟’

چنانچہ منگو کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایک بار پھر مزید برے وقت کے لیے تیار ہو جائے۔ عہد شغلیہ ختم ہوتا ہے تب عہد شغلیہ کے یہ آخری ایام بہت یاد آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments