کویت جنگ: جب عمان سے 63 دنوں میں ایک لاکھ ستر ہزار انڈین شہریوں کو بحفاظت واپس لایا گیا

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


एयर इंडिया के विमान से लेकर आए गए भारतीय

Photo Division

دو اگست 1990 کو اس وقت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال فلپائنی وزیر خارجہ امرکم منگل داس کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کر رہے تھے۔ پھر کویت میں انڈین سفیر اے کے بدھی راجہ کو فون آیا کہ عراق نے کویت پر حملہ کر دیا ہے۔

اسی دن کویت کے حکمران شیخ الجابر الصباح نے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لے لی تھی۔ فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا جہاں امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے متفقہ طور پر عراق پر حملے کی مذمت کی۔

اس وقت کویت میں تقریباً دو لاکھ انڈین رہ رہے تھے۔ چونکہ ان سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، اس لیے انڈیا میں رہنے والے ان کے خاندان کے لوگ بہت پریشان تھے۔

فوری طور پر کابینہ کمیٹی برائے سیاسی امور کا اجلاس بلایا گیا جہاں وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر ماسکو، واشنگٹن، عمان اور بغداد کا دورہ کریں۔

اس وقت ان کے پاس دو راستے تھے۔ نمبر ایک یہ کہ وہ امریکہ کو قائل کریں کہ وہ کویت پر حملہ نہ کرے تاکہ عراقی فوج کو کویت سے باہر نکالا جائے اور وہاں رہنے والے انڈین محفوظ رہیں۔ دوسرا آپشن عراق کو قائل کرنا تھا کہ وہ کویت میں رہنے والے انڈین شہریوں کو بحفاظت انڈیا لانے میں مدد دے۔

इंदर कुमार गुजराल

Robert NICKELSBERG

گجرال کا امریکی مشن ناکام ہو گیا۔ امریکیوں نے گجرال کی درخواست قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

گجرال 19 اگست کی صبح ماسکو، واشنگٹن اور عمان سے ہوتے ہوئے بغداد پہنچے۔ وہ سب سے پہلے انڈین سفارتخانے گئے جہاں کویت سے فرار ہونے والے تقریباً 100 انڈین شہری پہنچے تھے۔

گجرال کی صدام حسین سے ملاقات کا احوال

اندر کمار گجرال اپنی سوانح عمری ‘میٹرس آف ڈسکریشن۔ این آٹو بائیوگرافی’ میں لکھتے ہیں کہ ’صدام حسین نے خاکی وردی پہنی ہوئی تھی اور کمر پر پستول لٹکا ہوا تھا۔

’انھوں نے مجھے دیکھتے ہی گلے لگا لیا۔ یہ تصویر اردگرد کے اخبارات میں چھپی تھی۔ ان کے مطابق اس تصویر سے ہماری صورتحال قدرے عجیب ہو گئی تھی کیونکہ اس تصویر نے یہ پیغام دیا کہ انڈیا کا وزیر خارجہ صدام حسین کو گلے لگا رہا ہے، جس کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔‘

ان کے مطابق ’گفتگو کے دوران صدام حسین نے مجھے بتایا کہ اگر ان پر حملہ کیا گیا تو وہ منھ توڑ جواب دیں گے۔ ان کے خیال میں سوویت یونین اب وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ تھوڑی دیر بعد میں اپنے ہم منصب وزیر خارجہ طارق عزیز سے ملا اور ہم نے کویت اور عراق سے انڈینز کو واپس لانے کے منصوبے کو حتمی شکل دی۔’

21 اگست کی صبح گجرال کو عراق کے صدر صدام حسین کا پیغام ملا کہ وہ ان سے فوراً ملنا چاہتے ہیں۔

इंदर कुमार गुजराल की आत्मकथा 'मैटर्स ऑफ़ डिस्क्रेशन- एन ऑटोबायोग्राफ़ी'

Hay House

انڈیا کے لیے بحرانی صورتحال

بعد میں، کے پی فیبیان، اس وقت کے جوائنٹ سکریٹری (خلیجی ممالک) اور کئی ممالک میں انڈیا کے سفیر نے، ‘فارن افیئر جنرل’ کو انٹرویو دیتے ہوئے گجرال کا دفاع کیا کہ ’اگر کسی بھی ملک کا سربراہ مملکت آپ کو گلے لگانا چاہتا ہے تو آپ منع نہیں کر سکتے۔‘

گجرال کا صدام کو گلے لگانا غلط یا صحیح ہو سکتا ہے، لیکن صدام وہاں پھنسے ہوئے انڈین شہریوں کو ان کے ملک بھیجنے میں مدد کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔

لیکن اس کے لیے انڈیا کو بھی بڑے بحران سے گزرنا پڑا۔ انڈیا کے اکثر عرب دوستوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی۔

اُس وقت اقوام متحدہ میں انڈیا کے مستقل نمائندے چنمے گھری خان کا کہنا ہے کہ ’میں نے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی صدام حسین کے اس حملے کی مذمت کرنی چاہیے لیکن میرے مشورے پر کان نہیں دھرا گیا بلکہ غم کا اظہار کیا۔‘

مجھے یاد ہے کہ جب اس وقت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نیویارک آئے تو انھوں نے جلاوطن کویتی وزیر خارجہ شیخ صباح الاحمد سے کہا کہ ہم 101 فیصد کویت کے ساتھ ہیں، اس پر کویتی وزیر خارجہ نے طنز کیا۔

‘ایکسی لینسی، آپ کی 100 فیصد حمایت بھی کام آئے گی لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا جیسا عظیم ملک اس حملے کی مذمت کرے۔‘

सद्दाम हुसैन

Jacques Pavlovsky

گجرال اپنے طیارے میں 150 شہریوں کو گھر لے آئے

انڈیا وزیر خارجہ اے کے گجرال 22 اگست کی سہ پہر کویت سے بغداد پہنچے۔ جب وہ انڈین مشن پر پہنچے تو وہاں پہلے سے ایک ہزار شہری جمع تھے۔

وہاں کوئی اونچی جگہ نہیں تھی اس لیے گجرال نے اپنی گاڑی کی چھت پر کھڑے ہو کر انھیں مخاطب کیا۔

جیسے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ اے کے گجرال انھیں وطن واپس لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھوں نے ‘بھارت ماتا کی جے’ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔

گجرال 23 اگست کو رات نو بجے نئی دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے طیارے میں ان کے ساتھ تقریباً 150 افراد آئے جن میں زیادہ تر حاملہ خواتین اور بچے تھے۔

گجرال اپنے ساتھ خطوط کا ایک بڑا بیگ بھی لائے تھے جو کویت میں رہنے والے انڈین شہریوں نے انڈیا میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے نام بھیجا تھا۔

कुवैत से लोगों को निकालने का अभियान

HAIDAR HAMDANI/AFP via Getty Images

طیاروں کو عراق جانے کی اجازت نہیں

کابینہ نے پہلے فیصلہ کیا کہ وہ شہریوں کو واپس لانے کے لیے ایک جہاز عراق بھیجے گی، لیکن عراق نے انڈین جہاز ‘ٹیپو سلطان’ کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی۔

جب یہ طے ہوا کہ شہریوں کو لانے کے لیے انڈین فضائیہ کے طیارے بھیجے جائیں گے، عراق نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔

ان کی شرط یہ تھی کہ انڈین طیاروں کو صرف اسی وقت عراق میں داخل ہونے دیا جائے گا جب وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا لے کر عراق آئیں گے۔ تب تک پوری دنیا نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں، اس لیے وہاں کھانے پینے کی اشیا لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

شروع میں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید لوگوں کو کویت سے نکالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن آہستہ آہستہ وہاں کے حالات خراب ہونے لگے۔

سنہ 1980 سے کویت میں مقیم ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ریجنل مینیجر نے کہا کہ ’عراقی فوجی ہمارے ساتھ اچھے تھے لیکن وہاں رہنے والے کچھ فلسطینیوں نے لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔‘ ان کے مطابق ’ایک دفعہ ایک شخص نے میرے سر پر پستول تان لی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ گاڑی مجھے دے دو۔ خوش قسمتی سے میں نے گاڑی کے کچھ پُرزے نکال لیے تھے جس کی وجہ سے وہ گاڑی سٹارٹ بھی نہ کر سکے۔‘

لوگوں کو لانے کے لیے ایئر انڈیا کے طیارے تعینات

آخر میں، کویت سے شہریوں کو نکالنے کے لیے ایئر انڈیا کے طیاروں کا استعمال کرنے پر اتفاق ہوا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اتنے لوگوں کو لانے کے لیے طیارے کہاں سے لائے جائیں؟

فروری 1990 میں ایک A-320 طیارہ گر کر تباہ ہو گیا جس کی وجہ سے نئے خریدے گئے A-320 طیاروں کا پورا بیڑا گراؤنڈ کر دیا گیا یعنی ان طیاروں کو پرواز کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس وقت ان طیاروں کی خریداری پر بڑا سیاسی تنازع بھی کھڑا ہو گیا تھا۔

ایئر انڈیا نے ان کھڑے ہوائی جہازوں کا استعمال شہریوں کو کویت سے نکالنے کے لیے کیا۔ اس پورے مشن کو مربوط کرنے کی ذمہ داری وزارت خارجہ میں خلیجی ممالک کے جوائنٹ سیکرٹری کو دی۔

بعد میں انھوں نے اکنامک ٹائمز میں لکھا کہ ’مجھے 2 اگست کو لندن سے کویت کے سب سے امیر انڈین شہری ٹی بی مینن کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ہر شہری کو کویت سے نکالنے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’میں نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ بھی کہا کہ اگر وہاں سے لوگوں کو نکالنا ضروری ہوا تو اس کے اخراجات انڈین حکومت برداشت کرے گی، اگر حالات مشکل ہوئیں تو ہم آپ کی پیشکش پر غور کریں گے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ہر روز عمان میں ایئر انڈیا کا مینیجر مجھے یہ بتانے کے لیے فون کرتا کہ اگلے دن کتنے لوگوں کو نکالا جانا ہے۔ میں سول ایوی ایشن کے سیکریٹری اے وی گنیشن کو فون کروں گا اور ایئر انڈیا کے طیارے ضرورت کے مطابق عمان بھیجے جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جب امریکہ نے کویت کی آزادی کی جنگ لڑی

’عراق، افغانستان پر ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن وہی کیا جو صحیح لگا‘

پاکستان میں امریکی کارروائی کو ’آخری وقت پر منسوخ‘ کروانے والے رمزفیلڈ کون تھے

शरणार्थी

Peter Turnley

کویت میں پھنسے انڈینز کی مشکلات میں اضافہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے کسی شہری طیارے کو عراق اور کویت میں اترنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے لوگوں کو بسوں میں لاد کر پہلے عراق اور پھر وہاں سے اردن کے دارالحکومت عمان پہنچایا گیا۔ انھیں عمان پہنچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

سب سے پہلے تو لوگ اپنی زندگی بھر کی کمائی چھوڑ کر وطن واپس آنے کو تیار نہیں تھے۔

دوسری بات یہ کہ وہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کے پاس درست سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ انھوں نے اپنے پاسپورٹ اپنے مالکان کے پاس جمع کرائے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ یا تو لاپتہ تھے یا مر چکے تھے۔

صحافی صلیل ترپاٹھی کا 15 ستمبر 1990 کو انڈیا ٹوڈے میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے لکھا کہ ’تقریباً ایک لاکھ پینسٹھ ہزار شہری اب بھی کویت اور عراق میں پھنسے ہوئے ہیں، جو پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی کمائی چھین لی گئی ہے کیونکہ عراق کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ کویتی دینار کو بارہ گنا اور عراقی دینار کے برابر کر دیا۔‘

انھوں نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔ بالوں میں دھول آگئی۔ گلا خشک ہوگیا اور آواز خراب ہوگئی۔ راتوں رات عمان میں ایک خوبصورت پہاڑی پر واقع انڈین سفارت خانہ ریلوے پلیٹ فارم کی طرح بن گیا ہے۔ سفارت خانے کے فرسٹ سکریٹری ارون گوئل کہتے ہیں کہ یہ کسی وسائل کے بغیر کُنبھ میلے کا اہتمام کرنے جیسا تھا۔

शरणार्थी

PATRICK BAZ

لوگوں نے عمان کے سکولوں میں پناہ لی

ایئر انڈیا کا عملہ کویت میں پھنسا ہوا تھا۔ وہاں اترنے کے بعد انھیں وہاں سے واپس اڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایئر انڈیا کے پائلٹ اور دیگر ملازمین حکومت سے اصرار کر رہے تھے کہ اگر ان کے ساتھی بحفاظت واپس نہیں آئے تو وہ جہاز نہیں اڑائیں گے۔ بہت سے شہریوں نے عمان کے کئی سکولوں اور دیگر عمارتوں میں پناہ لی۔

یہ بتانا مشکل تھا کہ ان میں سے کتنے لوگ ایئرپورٹ پہنچیں گے جس کی وجہ سے کئی پروازیں تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے ملازمین بھی کویت میں پھنسے ہوئے ہیں۔

انھوں نے انڈین حکومت سے درخواست کی کہ انھیں انسانی ہمدردی کے طور پر انڈین طیارے سے باہر نکالا جائے۔ ایئر انڈیا کے طیاروں نے بھی انھیں بحفاظت باہر نکالا۔

انڈیا وہ پہلا ملک تھا جس نے کویت سے اپنے شہریوں کو ہوائی جہاز سے اُٹھایا، ایئر انڈیا کے طیارے پاکستان اور مصر سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ انڈیا کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال پہلے وزیر تھے جنھیں کویت جانے کی اجازت دی گئی۔

शरणार्थी

PATRICK BAZ

63 دنوں تک لوگوں کو لانے کی مہم

ایئر انڈیا کا یہ آپریشن 14 اگست 1990 کو شروع ہوا اور 11 اکتوبر تک 63 دن چلا۔

اس دوران ایئر انڈیا کے طیاروں نے عمان کے لیے روزانہ چار پروازیں کیں اور مجموعی طور پر ایک لاکھ ستر ہزار شہریوں کو واپس لایا گیا۔

بعد ازاں 2016 میں اس مہم پر ایک فلم ‘ایئر لفٹ’ بھی بنائی گئی اور اسے لوگوں کو فضائی راستے سے بحفاظت نکالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ سب سے بڑی مہم کے طور پر گنیز بک آف ریکارڈ میں درج ہے۔

وی پی سنگھ کی حکومت 11 اکتوبر کو اس مہم کے اختتام کے ایک ماہ کے اندر ہی گر گئی۔ آج کویت میں تقریباً دس لاکھ انڈینز رہتے ہیں، جو وہاں کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments