حکومتی اور اپوزیشن دونوں کے راہنماؤں کو اپنی ہار کا یقین ہے


زندگی میں ہم کئی لطائف پڑھتے سنتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ہم کسی لطیفے کو خود مشاہدہ کریں یا ہم خود اس لطیفے کا حصہ ٹھہریں گزشتہ روز ایسی ہی مضحکہ خیز داستان مجھ پر بیتی۔ ہوا یوں کہ کل صبح تحریک انصاف اسلام آباد کے سرکردہ راہنماؤں سے ملاقات ہوئی اور شام اپوزیشن کے راہنماؤں سے ظاہر ہے حالات کی مناسبت سے موضوع تحریک عدم اعتماد ہی تھا۔ لطیفہ یہ ہوا کہ حکومتی اور اپوزیشن راہنما دونوں کو یقین تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ہار جائیں گے۔

اگرچہ یہ مزاحیہ صورتحال ہے لیکن اس میں ہماری پون صدی کی سیاسی تاریخ کا نوحہ درج ہے۔ اخلاقی گراوٹ کی پستی کی آخری حد کو چھوتی پاکستانی سیاست میں شکست خوردگی اب اس بوسیدہ نظام ہی نہیں قوم کی اجتماعی شکست کا اعلان ہے۔ قوم کے منصب راہنمائی پر فائز افراد نے ایسی ایسی راہزنی کی ہے کہ محاورہ کے مطابق اب

Eating himself to death

کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ اب خوف اونچی بڑھکوں اور دلیری کی جعلی اداکاری میں چھپائے نہیں چھپتا۔ حالت ایسی ہے کہ پاکستان میں طاقت سے وابستہ ہر کردار اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنا ہی اگلا فخریہ نگلنے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چاہے حکومت ہو اپوزیشن یا اسٹیبلشمنٹ۔

حکومت کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین اس قدر ہے کہ حکومت کی سب سے اونچی نشست پر براجمان کپتان وزیراعظم عمران خان روس کے اشارے کنائے میں روکنے کے باوجود عین حالت جنگ میں روس جا پہنچے۔ ایسی حالت میں تو اتحادی اجتناب برتا کرتے ہیں جبکہ اس بے مصرف دورے میں ہم جس ملک گئے ہم اس کے قطعی اتحادی نہیں بلکہ وزیراعظم ہی کے مطابق ہم نیوٹرل ہیں۔

مزید برآں وزیراعظم کو عدم اعتماد کی کامیابی کا اس قدر یقین ہے، جس نے ایسے وقت جب کرونا اپنے عروج پر تھا اور پٹرول عالمی مارکیٹ میں علامتی طور پر مفت ہو گیا تھا تب بھی ریلیف نہ دیا ایسے وقت میں پٹرول دس روپے سستا کر دیا ہے جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔

یہ عدم اعتماد ہی کی کامیابی کا یقین کامل ہے کہ آئی ایم ایف سے لے کر یورپی یونین تک ہر ایک کو للکارا جا رہا ہے۔ بم کو لات مارتے تو سنا تھا بم سے فٹبال کھیلنے تک آنے والا ہی نیوٹرل کو جانور سے تشبیہ دینے کی جسارت کر سکتا تھا۔ لیکن یہ سب ہمارے سامنے ہو رہا اس کا مجھ جیسا بندہ تو یہی معنی نکال سکتا ہے کہ وزیراعظم کو یقین ہے کہ اب حکومت کا جانا ٹھہر گیا تو سر اٹھا کر تاریخ میں بڑے حوالوں کے ساتھ زندہ رہا جائے ورنہ جس فرد کو اپنے حکومت میں رہنے کا یقین ہو وہ اپنے ہی راستے میں بارودی سرنگیں نہیں بچھایا کرتا۔

لیکن احساس شکست ایوان اقتدار ہی نہیں حزب اختلاف کی صفوں میں بھی اماوس کی رات بن کر چھایا ہوا ہے۔ اپوزیشن کا ہر نمائندہ نجی محفلوں میں پوچھتا پایا جاتا ہے کہ سینٹ میں واضح اکثریت کے باوجود دو بار عدم اعتماد کی شرمناک شکست کھانے والی اپوزیشن جس سے چند ہفتے پہلے ہی دن کی روشنی میں مالیاتی اور دیگر قوانین پر گنتی میں تذلیل آمیز انداز میں ہروایا گیا وہ کہاں سے ایسی طاقتور ہو گئی کہ اب وزیراعظم کو ہٹانے چلی ہے۔

اے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی بڑھکیں اور للکار لگاتے ہوئے اپنے قوت بازو پر تو پورا اعتماد دکھاتے ہیں لیکن عدم اعتماد پر وہ واضح ہیں کہ ہار بھی ہو سکتی ہے۔ اس شکست خوردگی کی سب سے طاقتور ترین دلیل قائد حزب اختلاف جنہیں انہیں کی تنظیم کے دل جلے وفاقی وزیر اپوزیشن کہتے ہیں۔ ان کی کسی بھی ٹویٹ کے نیچے ان ہی کی کارکنان کی ان کے لیے خراج تحسین کی زبان ملاحظہ فرما لی جائے۔

یہ تاثر چاہے کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو لیکن نون لیگ اور اپوزیشن میں یہ خیال یقین کی حد تک پایا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کا مقصد عمران خان کو وزارت عظمی سے ہٹانا نہیں بلکہ کسی اور کی تقرری سے بچنا ہے۔ ورنہ ہر دن تیزی سے غیر مقبولیت کی کھائی میں گرتے فرد کو سیاسی شہید بنانے کا کیا فائدہ؟

ہو سکتا ہے میں غلط ہوں لیکن میری رائے میں بھی نون لیگ کا کسی تقرری کا خوف ہی اسے پیپلز پارٹی کے عدم اعتماد کے موقف پر قائل کر سکا ہے۔ اور اگر میری رائے درست ہے تو ایسی جماعت جس کی پالیسیاں ایک ممکنہ تقرری سے جڑی ہوں وہ اپنے ہونے کے تمام اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ جس سوا کروڑ ووٹ لینے والی جماعت کی ساری قیادت ان کی بقول بے گناہ جیلیں بھگت چکی ہو۔ حتی کہ قائد کی بیٹی بھی جیل کاٹ چکی ہو اور وہ قابل ذکر کیا علامتی احتجاج کی سکت بھی نہ رکھتی ہو شاید عدم اعتماد تو جیت سکتی ہے اعتماد نہیں جیت سکتی۔

کہنے کو فیصلے قریبا ایک ہفتے میں ہونا ہے لیکن اس وقت ہی پاکستان کے سیاسی بساط پر براجمان تمام کردار اعتماد ہار چکے ہیں اور سلامت ہیں تو اس سب تماشے میں نعرے لگانے والے مفاد پرست یا اندھی عقیدت والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments