آگرہ: ایک شہر بے مثال، جہاں تاج محل بھی ہے اور اسے بنانے والا قید بھی رہا


سنہ 1999 ء میں ہندوستان کا ایک طویل سفر کیا جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

آگرہ کا تاج محل ہماری اصل منزل تھا۔ جیسے ہی ہم آگرہ پہنچے، اس شہر نے بھی ہمیں بے حد متاثر کیا۔ ہم تاج محل سے مناسب فاصلے پر بس سے اتر گئے۔ تاج محل کو آلودگی سے بچانے کے لیے ایک خاص مقام سے آگے کوئی گاڑی نہیں جاتی۔ وہاں پر ایک الیکٹرک گاڑی موجود تھی جو سیاحوں کو تاج محل تک لے جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تانگے بھی اس کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ الیکٹرک گاڑی یا تانگہ آپ کو صرف تاج محل کے مین گیٹ تک لے کر جاتا ہے۔

آپ یوں سمجھ لیجیے کہ تاج محل جتنی بڑی بلڈنگ ہے اس سے کئی گنا بڑی عمارتیں اس کے اردگرد موجود ہیں۔ جن کی شان و شوکت تاج محل جیسی تو نہیں لیکن کم بھی نہیں ہے۔ یقیناً وہ بھی اپنے زمانے کی بہت شاندار عمارتیں ہوں گی۔ ان کی دیکھ بھال کم ہونے کی وجہ سے ان کے رنگ و روپ میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو تاج محل کے بارے میں کچھ بتاؤں، میں چاہوں گا کہ آپ کو آگرہ کی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ آگاہی فراہم کی جائے۔

آگرہ : ایک عظیم تاریخ کا حامل شہر

آگرہ بذات خود ایک خوبصورت لفظ ہے جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ مجھے ہمیشہ ہی سے یہ لفظ بہت بھلا لگا۔ جیسے ہی ہم آگرہ پہنچے تم مجھے یوں لگا جیسے میری کوئی بہت ہی پرانی خواہش پوری ہو گئی ہے۔ یہ شہر ان شہروں میں سے ہیں جسے مغلوں سے پہلے افغانوں نے آباد کیا۔

ستیا چندرا مکھر جی کی کتاب جو 1882 ء میں لکھی گئی، آگرہ کی سیاحت کی رہنمائی کے لیے انٹر نیٹ پر موجود ہے میں درج ہے کہ ابراہیم لودھی کے والد سکندر لودھی نے 1504 ء میں اپنا پایہ تخت دلی سے یہاں منتقل کیا تھا 1۔ اس کے بعد کی آگرہ کی تاریخ کافی حد تک لوگوں کو معلوم ہے۔ اس سے پہلے کی تاریخ کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے۔ مکھر جی نے لکھا ہے ایک یونانی سیاح جو دوسری صدی میں یہاں پر آیا اس نے شہر کا تذکرہ آگرہ کے نام سے کیا ہے۔ مہا بھارت میں بھی اس شہر کا ذکر ”آگراوانہ“ کے نام سے ملتا ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔

محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ ایک غیر آباد گاؤں تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔ میں نے شہر بھر میں گھوم کر یہ جاننے کی کوشش کی یہاں پر کوئی بہت ہی پرانا مندر ہو لیکن مجھے ایسا کچھ نہیں ملا۔ مکھر جی کے مطابق محمود غزنوی کے وقت یہ ایک بہت چھوٹا سا گاؤں تھا اور اس کے پانچ سو سال بعد ابراہیم لودھی نے اسے آباد کرنا شروع کیا اور جب مغلوں نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو آگرہ کی حیثیت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔

پھر جب یہاں پر تاج محل بنایا گیا، آگرہ فورٹ کی ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئی اور اس کے قریب سکندرہ میں اکبر کا مزار بنایا گیا تو ان تین چیزوں نے اس شہر کو چار چاند لگا دیے۔ راجہ جے پال اور محمود غزنوی کی آپس کی جنگوں کے تذکرے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے بھی اس شہر پر قبضے کے لیے مغل حکمرانوں کے ساتھ جنگ لڑی۔

اس وقت آگرہ کی آبادی پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ زیادہ تر لوگ ہندی اور اردو بولتے ہیں لیکن اس علاقے کی اپنی بھی ایک بولی ہے جسے براج کہتے ہیں۔ اس شہر کے قریب ہی بھارت پور کے نام سے جاٹوں نے اپنی ایک چھوٹی سی ریاست بنائی ہوئی تھی۔ ان جاٹوں نے جب یہ محسوس کیا کہ مغل کمزور ہو گئے ہیں تو انھوں نے آگرہ پر حملہ کر دیا اور جو ممکنہ تباہی ہو سکتی تھی وہ کی اور مغلوں سے اپنے اوپر کیے جانے والے مظالم کا بدلہ لیا۔ یہ ریاست کافی عرصہ تک قائم رہی۔ مغل حکمرانوں کے زوال کے بعد انگریزوں نے اس علاقے پر اپنا قبضہ کر لیا۔ ان کے دور میں یہاں بہت سخت قحط بھی پڑا۔ یہ شہر سطح سمندر سے ساڑھے پانچ سو فٹ بلند ہے اس لیے یہاں پر گرمی پڑتی ہے۔ اس شہر میں مختلف بادشاہوں نے کیا کچھ بنایا؟ اس کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا۔

آگرہ دارالحکومت کیوں؟

میرے ذہن میں بارہا یہ سوال آیا کہ مختلف بادشاہوں نے دلی کی بجائے آگرہ کو کیوں اپنا پایہ تخت بنایا؟ جب میں نقشے میں آگرہ کے محل وقوع کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آگرہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جس کے مشرق میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں نا صرف مسلمانوں کی آبادی کم تھی بلکہ ان علاقوں سے مسلمان بادشاہوں کو بہت کم خطرات لاحق تھے۔ ان لوگوں نے ایسے علاقوں کے پاس اپنا پایہ تخت بنایا جہاں مقامی طور پر ان کو خطرات کم تھے۔ اس کی نسبت دہلی اور لاہور وہ علاقے تھے جہاں پر مغرب سے آنے والے افغان اور وسطی ایشیا ءکے لوگ حملہ آور ہوتے تھے۔

اسی لیے آپ دیکھتے ہیں ابراہیم لودھی، جس کا پایہ تخت آگرہ تھا، نے بابر کا مقابلہ کرنے کے لیے دلی سے بھی آگے پانی پت کے میدان کا انتخاب کیا۔ بابر پانی پت کے مغرب میں واقع پنجاب اور دیگر علاقہ جات پہلے ہی فتح کر چکا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ابراہیم لودھی آگرہ میں بابر کا مقابلہ کرتا تو وہ یہ جنگ جیت سکتا تھا۔ اس کی وجہ مقامی حمایت تھی جو اسے مل سکتی تھی۔

بابر نے بھی دلی کو پایہ تخت بنانے کی بجائے ابراہیم لودھی کے مرکز، آگرہ پر ہی قبضہ کر کے اسے اپنا پایہ تخت بنایا۔ اس سے قبل غوری سے لے کر لودھی تک (تین سو سال سے زائد عرصہ میں ) سب حکمرانوں کا پایہ تخت دلی ہی رہا۔ بابر کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ہمایوں کی تاج پوشی بھی آگرہ میں ہی ہوئی اور پھر شیر شاہ سوری نے بھی آگرہ ہی میں ہمایوں کو شکست دی تھی۔ شیر شاہ سوری کو اسے اپنا پایہ تخت بنانے کا موقع نہ مل سکا، اس کا آٹھ سالہ دور حکومت ہمایوں کا پیچھا کرتے ہوئے ہی گزرا۔

جب اکبر نے حکومت سنبھالی تو اس نے بھی آگرہ کو ہی اپنا مرکز بنایا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ وہ ضرورت کے تحت لاہور اور فتح پور سیکری میں بھی رہا کرتا تھا۔ اکبر کے بعد جہانگیر نے بھی آگرہ ہی کو اپنا مرکز بنایا۔ شاہ جہاں وہ پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے دلی کے پاس شاہجہاں آباد کے نام سے ایک شہر بسانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے وہاں لال قلعہ بنوایا اور اپنا پایہ تخت دلی منتقل کر لیا اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے مغلوں نے دلی ہی کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آگرہ مغلوں کی پسند نہیں تھا بلکہ اسے پہلے ہی سے لودھی خاندان نے اپنا پایہ تخت بنایا ہوا تھا اور مغلوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا لیکن جیسے ہی انھیں موقع ملا تو انھوں نے دلی میں لال قلعہ بنا کر اپنا پایہ تخت وہاں منتقل کر لیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ تاج محل جانے کے لیے تانگے بھی موجود تھے اور بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں بھی۔ ہم نے تانگے کو ترجیح دی۔ یہ شاید ہمارا تانگے سے پرانا رومانس تھا جو اسے دیکھ کر جاگ اٹھا تھا۔

میرے بچپن میں تانگے کی سواری ہی سب سے اہم سواری ہوتی تھی۔ آج ان ہی خیالات کے ساتھ ہم نے تانگے میں بیٹھ کر آگرہ کی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ممتاز محل کی طرف سفر شروع کر دیا۔

گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ایک سریلے ردھم کے ساتھ بتا رہی تھی کہ اس شہر میں جہاں محبت کی نشانی تاج محل ہے وہیں پر آگرہ کا قلعہ بھی ہے جہاں پر اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرنے والے اور محبت کی ایک لازوال نشانی بنانے والے بادشاہ کو قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔

بادشاہوں کے ساتھ ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ کبھی تخت تو کبھی تختہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments