موہنجو دڑو: نام اور کروڑوں کے بجٹ کا المیہ


وادیٔ سندھ کی شاندار اور عظیم تہذیب موہینجو دڑو دنیا میں سندھ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پہچان ہے کہ ہزاروں سال پہلے یہ خطہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ عالمی ورثے میں شامل موہنجو دڑو پر بہت لکھا کیا ہے۔ مگر اس کے درست نام تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی کروڑوں روپے کی ملنے والی عالمی بجٹ ہڑپ ہونے کے بارے میں کسی نے لکھا۔

موہنجو دڑو کا سندھی زبان میں حقیقی تلفظ ’مہیں جو دڑو‘ ہے۔ مگر ہمارے مورخین اور محققین نے اپنے زاویے سے نام پر بحث کی ہے۔ محقق محمد ادریس صدیقی اپنی کتاب ’سندھو ماتھری جی سبھیتا‘ میں لکھتے ہیں کہ ”نام موہن جو دڑو درست ہے“ ۔ روچیرام شرما اپنی کتاب ’سندھ میں پراچین اتہاس‘ میں موہنجو دڑو سے اختلاف کرتے ہوئے درج کیا ہے کہ نام ”مہن جو دڑو ’درست ہے“ ۔ روچیرام کا خیال ہے کہ مہن لفظ سنسکرت کے لفظ ”مہہ“ یا ”ماہا“ سے ماخوذ ہے اس لئے نام مہن جو دڑو درست ہے۔

جب کہ سراج الحق میمن اپنی کتاب ’سندھی بولی‘ میں موقف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”موہنجو دڑو ہندو مت کے حوالے سے نام ہے اس لئے موئن جو دڑو (Mound of dead) نام درست ہے“ ۔ سراج میمن کا یہ موقف عجیب لگتا ہے۔ کیوں کہ جب موہنجو دڑو صفحہ ہستی پر تھا تب اس خطے میں اسلام کہاں تھا؟ اور موہنجو دڑو کے نام سے ہندومت کا تعلق بھی نہیں۔ بلکہ مقامی لہجے کا بگاڑ ہے جس کا ذکر میں اپنے مضمون ’سمیری تحریروں میں میلوحا اور موہنجو دڑو‘ میں کر چکا ہوں۔

دوسری بات یہ کہ وادیٔ سندھ میں جو ٹیلے، مقامات یا قدیم آثار ملے ہیں کیا وہ زندہ لوگوں کے ہیں؟ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جو تہذیبی ٹیلے یا آثار ملے ہیں وہ گزرے یا مرے لوگوں کے ہی ہیں۔ ایسے مقامات کیسے اجڑے اور قدیم باقیات بنے یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے موئن جو دڑو نام کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔

موہنجو دڑو نام کے حوالے سے مقامی روایت ہے کہ یہ نام ’مہیں‘ ہے۔ مقامی لوگ مہیں جو دڑو ہی کہتے ہیں۔ معروف محقق اور سندھی زبان کے عالم بھیرومل مہر چند آڈوانی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ سراج میمن سے متفق نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’قدیم سندھ‘ میں لکھتے ہیں ”نام مہین جو دڑو ہے جس کا مطلب مفتوح یا مرے ہوئے لوگوں کا ٹیلہ ہے“ ، نامور محقق انور پیرزادو موہنجو دڑو کے نام کے حوالے سے اس رائے کے ہیں کہ جو مقامی لوگ ”مہیں جو دڑو“ کہتے ہیں وہ ہی درست ہے۔

انگریز سرکار کے دور میں کی گئی سروے اور ریونیو رکارڈ کے نقشے میں موہنجو دڑو کے محل وقوع کو ضلع لاڑکانہ کی ڈوکری تحصیل اب باقرآنی تحصیل میں ”موہینجو دڑو، اجڑا ہوا شہر“ درج کیا تھا جو اب بھی رکارڈ پر ہے۔

معروف محقق تاج صحرائی کے مطابق موہنجو دڑو کا نام ”مہیں جو دڑو“ درست ہے۔ جب کہ جان مارشل نے موہینجو دڑو (Mohenjo Dro) لکھا ہے۔ جان مارشل نے مقامی معروف نام کو اہمیت دی تھی یعنی مہین جو دڑو جو بعد میں موہنجو دڑو سے زیادہ معروف ہو گیا ہے۔

گورنمنٹ آف سندھ نے اسمبلی سے جان مارشل کے لکھے گئے نام کو ترجیح دیتے ہوئے ”موہینجو دڑو“ کا بل پاس کیا ہے۔ میں اس رائے کا ہوں کہ درست نام مہین جو دڑو ہے جو المیاتی طور پر موہینجو دڑو یا موہنجو دڑو درج ہو گیا اور اب زیادہ مشہور ہو گیا ہے۔

موہنجو دڑو سے دوسرا المیہ یہ ہے کہ عالمی اداروں سے کروڑوں کا بجٹ آتا ہے اور کاغذوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ روایتی کانفرنسوں کے نام پر بجٹ ہڑپ ہو جاتا ہے اور کام کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کنزرویشن اور ریسٹریشن کے نام سے موہنجو دڑو کا حلیہ بگاڑا گیا ہے۔ گزرے ہوئے سال کی عالمی کانفرنس میں بیرون ملک کے ایک ماہر نے موہنجو دڑو کو دفن کر کے اس کا ماڈل بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ درست رخ میں کام نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ موہنجو دڑو کے پراجیکٹ اور کمیٹی کا سربراہ آرکیولاجسٹ نہیں۔ وہ ایک رٹائرڈ بیوروکریٹ اور سندھی زبان میں پی ایچ ڈی ہولڈر ہے۔ حکومت سندھ بالخصوص سیاحت ثقافت اور نوادرات ڈپارٹمنٹ سندھ کو اس المیہ کا حل ڈھونڈنا چاہیے تا کہ موہنجو دڑو کو خستہ حالی سے بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments