کہیں پوری بساط ہی نہ لپٹ جائے


پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال، سیاستدانوں کی جانب سے بیان بازی، الزام تراشی اور سڑکوں پر آنے کی دھمکیوں سے مجھے بچپن میں ماسٹر رحیم بخش کے قاعدے میں پڑھی ہوئی کہانی یاد آ گئی۔ میرے جو قارئین سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں انہیں ماسٹر رحیم بخش کا قاعدہ لازمی یاد ہو گا۔ اردو سیکھنے کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھنے والے اس قاعدے کا آغاز اب پ ت سے ہوتا تھا اور یوں آگے انہی حروف تہجی کو جوڑ کر کے الفاظ پڑھتے تھے۔ یوں سمجھیں کہ اس قاعدے میں آپ کو انگلی سے پکڑ کر لڑکھڑاتے، لڑکھڑاتے چلنے کا فن (یعنی کہ اردو بولنے، سمجھنے اور لکھنے ) کا فن سکھایا جاتا تھا۔ اس قاعدے میں ہر طالب علم کی دلچسپی کا سامان اس کے آخر میں دی گئی کہانیاں اور حمد تھی۔

ان کہانیوں میں سے ایک کہانی تھی بلیوں کے روٹی کے ٹکڑے پر لڑائی کی۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ دو بلیوں کو سڑک پر روٹی پڑی ملی۔ دونوں اس روٹی پر جھپٹ پڑیں، ایک نے کہا کہ روٹی میری ہے تو دوسری نے کہا کہ روٹی سب سے پہلے مجھے ملی۔ اسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا، اسی اثناء میں ایک بندر آن پہنچا، بندر نے دونوں بلیوں کو مخاطب کر کے کہا، بہنو لڑتی کیوں ہو؟ لاؤ میں روٹی آدھی آدھی بانٹ دوں۔ بندر نے روٹی کے دو ٹکڑے کر کے ترازو میں ڈالے، جس طرف وزن زیادہ ہوتا اس ٹکڑے کو کتر کر کھا لیتا۔ کرتے کراتے بندر ساری روٹ کھا گیا اور بھوکی بلیاں راہ تکتی رہ گئیں۔

اپوزیشن کی جانب سے لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد جہاں یہ حکایت نون لیگ کے حوالے سے صادق ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ نون لیگ کا ووٹ بینک پنجاب خصوصاً سینٹرل اور شمالی پنجاب میں رہا ہے۔ اس ووٹ بینک کو زک سینٹرل پنجاب کے ہی سیاسی حلیف چودھری برادران نے پہنچائی تھی، چودھری پرویز الہی کا گورننس ماڈل بھی بلاشبہ قابل تعریف رہا ہے۔ اب اگر چودھری پرویز الہی کو مشترکہ اپوزیشن کے دو بڑوں یعنی کہ آصف علی زرداری اور جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمن کے اصرار پر نون لیگ وزیراعلی بنانے پر رضا مند ہوتی ہے تو یہ قوی امکان موجود ہے کہ مئی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ق لیگ چودھری پرویز الہی کی وزارت اعلی میں نون لیگ کے ووٹ بینک کو بڑا ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

موجودہ اسمبلیوں کا رہ جانے والا ڈیڑھ سال کا عرصہ اچھی گورننس اور بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے عوام کو ریلیف پہنچا کر ق لیگ رائے عامہ اپنے حق میں کر سکتی ہے۔ وہیں یہ بھی خدشہ ہے کہیں ایک دوسرے کو مات دینے، گالم گلوچ اور جلسے جلوسوں کے ذریعے سیاست کو پولرائز کرنے کے چکر میں جمہوری بساط ہی نہ الٹ جائے۔ نون لیگ عمران خان سے نجات دلانے اور نومبر میں نئے آرمی چیف کے تعیناتی کے فیصلے کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ کڑوا گھونٹ تو پینے کو تیار ہے۔

مگر عمران خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوتے ہی کیے جانے والے سیاسی جلسوں اور ان میں استعمال کی جانے والی زبان اور دھمکیاں تو معاملات کسی اور موڑ پر جانے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ موجودہ سیاسی لڑائی میں اپوزیشن جماعتیں جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر سوال اٹھاتی تھیں، اب صبح شام اسی اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا راگ الاپ رہی ہیں۔

مگر پاکستانی سیاست اور اس کے ماڈل میں یہ ناممکنات میں ہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاور پالیٹکس سے لاتعلق ہو جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لفظ ”نیوٹرل“ کی عوامی جلسوں میں کی جانے والی تشریح سے ایک بات تو واضح ہو رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ”فیضیاب“ ہوتے رہنے والے عمران خان کو اس سیاسی منجھدار میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ قرین قیاس تو یہ ہے کہ اپوزیشن کو کہیں نہ کہیں سے کوئی مثبت اشارے تو ملے ہیں۔ بالفرض یہ تصور کر لیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو یہ دونوں فریقین سمیت نحیف جمہوریت کے لئے بھی خطرے کی علامت ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے ڈی چوک پر تحریک عدم اعتماد سے ایک دن قبل ڈی چوک پر بڑا سیاسی جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

خان صاحب کی باڈی لینگوئج اور ٹون کو دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ یہ معاملہ ڈی چوک تک ہی نہیں رکے گا۔ دوسری جانب نون لیگ اور جے یو آئی ف نے بھی عین اسی وقت اپنا پاور شو کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب اگر اسی مقام پر سخت ترین مخالفین اور ان کے کارکنان کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور دونوں طرف سے اشتعال انگیز بیانات دیے جاتے ہیں تو یہ جلتی پر تیلی کا کام کریں گے۔ ایسے میں نیوٹرل رہنے والی تیسری فورس کو بادل نا خواستہ مداخلت کرنی پڑ جانی ہے۔ اور ایسی مداخلت کی اپنی ایک تاریخ ہے، کہیں اس سیاسی شطرنج کے کھیل کھیلنے والوں کی یہ بساط تیسری نیوٹرل قوت کی جانب سے الٹی گئی تو دونوں ایک دوسرے کا منہ نہ تکتے رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments