زرداری کی شاہ مات


سیاسی بساط پر سب پہ بھاری بازی گر آصف علی زرداری نے عدم اعتماد کی اپنی آخری چال چلتے ہوئے شاہ مات کا اشارہ کیا ہے۔ یہ آخری چال اتنی قیامت خیز تھی کہ ہر سو شور مچ گیا۔ اتنی جلدی اور اتنی غیر متوقع چال تھی کہ ایک ہی سوال کیا جانے لگا کہ کیا کہیں یہ چال عجلت میں تو نہیں چل دی گئی۔ اس کی تیاری تو نہیں کی گئی تھی۔ یہ چال کامیاب ہوگی یا نہیں ہوگی؟ سوال در سوال اور جواب میں بازی گر کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ سجی تھی۔ تماشائی بے خبر تھے خیرخواہوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ بازی گر ایک مدت سے اس چال کی تیاری میں تھا لہذا سوچ سمجھ کر چال چلی گئی۔ آخری چال اور اس یقین کے ساتھ آخری چال کہ اس کے نتیجہ میں شاہ مات ہی ہوگی

شاید یہی وجہ تھی کہ شاہ بھی سٹپٹا کے رہ گیا۔ شاہ کے حواریوں کا شور اٹھا کہ یہ عالمی سازش ہے اور دنیا کی مقتدر قوتیں حکومت تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ روس یاترا کے بعد یہ سب بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس بات کا ذکر اتنے زور و شور سے کیا گیا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی کہ اچانک شاہ نے بھرے مجمع میں اعلان کیا کہ یہ عدم اعتماد کسی بین الاقوامی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ میری دعاؤں کا ثمر ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اپوزیشن اپنی آخری چال چلے اور میں ایک بال پر تین وکٹیں گرا سکوں۔ شاہ نے یہ تاثر دینے کی پوری کوشش کی کہ وہ مضبوط ہے اور مقابلہ کرنا جانتا ہے لہذا گھبرانے کی بات نہیں ہے

میلسی، منڈی بہاوالدین، لوئر دیر اور حافظ آباد میں شاہ نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں کی بات ہے اور میں سب کا شکار کرنے والا ہوں۔ کیونکہ مجھ سے زیادہ مقابلہ کرنا کوئی جانتا ہی نہیں ہے۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں اور اگر یہ مائنڈ کی گیم ہے تو میں بلاشبہ ماسٹر مائنڈ ہوں اور میں ہی جیتوں گا۔ اتنی حوصلہ افزا تقریر سن کر ورکرز نے خوشی میں وہ دھمالیں ڈالیں کہ گھنگرو ہی توڑ ڈالے۔ مگر سب پہ بھاری بازی گر کے چہرے پر بدستور دھیمی مسکراہٹ یقینی جیت کی غمازی کر رہی ہے۔ چہرے کا اطمینان اور مسکراہٹ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ آخری چال بہت سوچ سمجھ کر چلی ہے

جیسے جیسے وقت ریت کی طرح سے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ویسے ویسے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ شاہ کو مات ہونے والی ہے۔ شاہ کی تقاریر سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اتحادی جماعت کی اپنے صوبے کے گورنر سے ملاقات ہوئی گورنر نے شاہ کا پیغام دیا اور ساتھ دینے کی درخواست کی تو اتحادیوں نے کہا کہ آپ کے اپنے ممبران آپ کے ساتھ نہیں ہیں ہمیں اپنے ممبران کے ساتھ دینے کا ثبوت دیں۔ گویا دبے لفظوں میں انکار ہی ہو گیا۔ سب سے بڑے صوبے میں شاہ کے اتحادی بھی بازی گر کی ضمانت پر ساتھ دینے کو تیار ہیں

اب اس ساری صورتحال میں تین سوال سامنے آتے ہیں اول یہ کہ کیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی؟ دوسرا سوال کہ کیا کامیابی کی صورت میں نئی حکومتیں تشکیل پا سکیں گے مطلب کیا اقتدار کا فارمولہ اتحادیوں کے درمیان طے پا سکے گا اور تیسرا سوال یہ کہ اگر اپوزیشن برسراقتدار آئی تو اس کی مدت کتنی ہوگی کیا وہ اسمبلی کی آئینی مدت تک رہے گی یا پھر جلدی نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اور یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ہر شہری جاننا چاہتا ہے۔

صرف عام شہری اور سیاسی ورکرز ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی جو گفتگو ہو رہی ہے وہ بھی انہی سوالات کے جواب کی تلاش میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے مطابق عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے وزیراعظم کا صرف ایک مینڈیٹ ہو گا کہ وہ الیکشن ریفارمز کر کے نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کردے۔ جبکہ ممکنہ نئے اتحادی بضد ہیں کہ اس صورت میں ساتھ دیں گے کہ اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی جائے اور نئے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔

اپوزیشن کیوں چاہتی ہے کہ اسمبلیاں جلدی تحلیل ہوں تو شاید اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مزید جو دو وفاقی بجٹ آنے ہیں ان میں آئی ایم ایف کی ہدایات کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا بلکہ ماننا پڑے گا اور اگر ایسا ہوا تو عوام کو ریلیف دینے کے وعدے پورے نہیں ہو سکیں گے جبکہ نئے انتخابات کے نتیجہ میں منتخب ہونے والی حکومت بہتر شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرسکے گی جس میں عوام کو ریلیف دینے کی گنجائش موجود ہوگی۔ اگر موجودہ اسمبلی کا تسلسل برقرار رکھا جاتا ہے تو آئی ایم ایف کے دباؤ کے نتیجہ میں عوام کو ریلیف دینا ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ اپوزیشن کی ساکھ کے لیے تباہ کن ہو گا

تاہم اس سب کے باوجود ایک پوائنٹ جس پر اپوزیشن کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ شاہ کو مات ہونی چاہیے۔ فی الحال اس ایک نکتے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے اس کے بعد جو ہو گا وہ مل بیٹھ کر طے کر لیا جائے گا۔ بالفرض اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا اور پھر کپتان ڈٰی چوک پر اپنے کارکنوں کے ساتھ بقیہ مدت گزارے گا مگر اس بار کپتان کے لیے یہ اپوزیشن کافی مشکل ہوگی اور شاید عوام کی وہ پذیرائی بھی نا مل سکے جو 2018 سے پہلے حاصل تھی۔

اگر عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو پھر اقتدار حقیقی معنوں میں کانٹوں کا بستر ہو گا۔ باقی ماندہ مدت میں عوام کو ریلیف دینا لازمی ہو گا وگرنہ آئندہ انتخابات کے نتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں بازی گر کے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ بہت توجہ اور اہمیت کی حامل ہے۔ اس آخری چال کی فتح و شکست صرف سیاسی قوتوں کی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کہیں اور کسی سینئر اور جونیئر کے مابین بھی ہار جیت تصور ہوگی۔ مطلب یہ کہ گیم آن ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments