ایک باغی بیوہ اور رحیم میں دوستی ہو گئی!



”بڑے عجیب لگتے ہیں لوگ جب ایک ہی وقت میں وہ تمہاری محبت بیان کرنے میں زمین و آسماں کے قلابے ملا دیتے ہیں اور ساتھ ہی تمہارا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں کہ محبت تصور سے ہی نکل جاتی ہے۔ اگر کچھ بچتا ہے تو وہ ہے خوف اور حیرت۔ خوف تمہارے غصے کا اور حیرت اس بات کی کہ شدید محبت اور شدید سختی و غصہ ایک خالق میں کیسے بسا دیتے ہیں لوگ؟ میں کبھی تم سے ملی نہیں ہوں مگر تمہیں ملے جلے احساسات کے ساتھ اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں محسوس کرتی آئی ہوں۔ یہ احساسات اس لیے ملے جلے تھے کیونکہ لوگوں کے کھینچے ہوئے نقشوں کے اعتبار سے میں تمہیں سوچتی اور محسوس کرتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب اس تعلق میں سے لوگوں کو ذرا دور کرنے کی اور ہمیں براہ راست بطور دوست قریب ہونے کی ضرورت ہے۔

اے شہ رگ سے قریب خدا!
میری دھڑکنیں سنو ذرا
میری سانسوں کی
لگاتار صدا
چیخ کر کہتی ہے بارہا
میں۔
زندہ ہوں رحیم
رحیم۔ میں زندہ ہوں!

آج تین برس ہو گئے ہیں اس کی میت کو اس گھر سے اٹھے جس کا ہونا میرے ہونے کی دلیل اور چلے جانا میرے مر جانے کا مطلب ٹھہرا۔ اس کے سانس اکھڑتے ہی میری ہر ہر سانس پر ہر شخص پہرہ دینے بیٹھ گیا۔ مجھے سفید تھان میں لپیٹ دیا گیا۔ میرے قہقہے اور دھڑکنیں فحاش ٹھہریں۔

میں بطور بیوی اور وہ بطور شوہر دونوں خوشگوار زندگی گزارتے رہے۔ مگر۔ ۔ ۔ صرف کسی کی بیوی ہونا ہی تو عورت ہونے کی تعریف نہیں۔ دیکھو اب وہ نہیں رہا تو میں کچھ نہیں رہی لیکن اگر میں مر جاتی تو اس کے مقام پر کوئی حرف نہ آتا۔ یہ بھلا کیسی تقسیم ہے رحیم؟ میں کسی کی بیوی یا بیوہ ہونے سے پہلے انسان کیوں نہیں ہوں؟

تم جانتے ہو؟ پچھلے تین سال میں نے کس کس کرب میں گزارے ہیں؟ یہ لوگ میری مسکراہٹ پر بھی شک کرتے ہیں۔ میں صرف پینتیس برس کی ہوں اور وہ پڑوس والا لطیف پچاس برس کا۔ اس کی بیوی پچھلے سال مر گئی اور اگلے مہینے ہی چار بچوں پر جوان سوتیلی ماں لا بٹھائی۔ جانتے ہو تم؟ اس کو کسی نے کچھ نہیں کہا۔

بہار آ گئی ہے۔ آنگن میں پھول کھل رہے ہیں۔ میں نے باغیچے سے موتیے اور گلاب کے کچھ پھول توڑے اور ان کے گجرے پہنے۔ رحیم۔ تمہاری بندی نے تمہارے بنائے حسین پھول پہنے اور ان کی خوشبو سے کھل سی گئی۔ جانتے ہو کیا ہوا پھر؟ ان لوگوں نے میرے کردار پر انگلیاں اٹھائیں۔ میں ٹوٹ گئی تھی رحیم۔

اب میں نے بھی اک بات ٹھانی ہے۔ اس دوستی میں میں ہوں گی اور تم ہو گے۔ نہیں سنوں گی میں لوگوں کی باتوں کو اور نہ ہی توجہ دوں گی ان کے کھینچے ہوئے عجیب نقشوں پر۔ میں اتنی تنہا ہوں کہ کسی کا ساتھ چاہتی ہوں۔ میں اچھے دوست چاہتی ہوں۔ اس واسطے تمہیں دوستی کا پیغام بھیج رہی ہوں۔

جانتی ہوں کہ تم جوابی خط نہیں لکھو گے۔ تمہارے اپنے ہی انداز ہیں۔

چلو۔ یہ طے کرتے ہیں کہ اب جو تبدیلیاں میں اپنی زندگی میں کروں گی اگر تم ان سے خوش ہوئے تو میری زندگی میں ہریالی بھر دینا۔ مجھے اعتماد اور خوشی سے بھر دینا۔ میں سمجھ جاؤں گی کہ میرے دوست کو میرے اقدام پسند آئے ہیں۔

تمہاری دوست
لیلیٰ ”

یہ خط اس نے رات کے پچھلے پہر لکھا۔ میز پر سجی کتابوں میں سے اس نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں رکھ دیا۔ ڈائری پر ایک فہرست بھی درج تھی جس میں حال ہی میں آئی ملازمت کی پیشکش قبول کرنا، خود کو پہلے کی طرح زندگی سے بھرپور اور حسین بنانا، اپنا حلیہ سنوارنا، حوصلہ افزائی کرنے والے لوگوں سے دوستی کرنا اور اذیت دیتے لفظ بولنے والوں سے دوری برتنا وغیرہ شامل تھے۔ فہرست میں مزید باتیں وہ شامل کرتی گئی اور عمل پیرا ہوتی گئی۔ اندرونی اذیت کم ہونے لگی۔ اپنی ذات سے محبت اور اعتماد میں اضافے سے لیلٰی کو یقین ہو گیا کہ اس کے دوست کو اس کی تبدیلی پسند آ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments