بلوچستان کی نئی حکومت کے ’ناراض اراکین‘ بھی تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں؟

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے ماحول اگرچہ اسلام آباد اور لاہور میں گرم ہے لیکن اچانک بلوچستان کے حوالے سے بھی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔

یہ چہ مگوئیاں اسلام آباد میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال اور تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی رہنما سردار یارمحمد رند کی حزب اختلاف کے رہنماﺅں سے ملاقاتوں کے بعد سے شروع ہوئیں۔ تاہم ان میں شدت سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی کی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے بغاوت کے بعد آئی۔

ظہور بلیدی نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) میں دوبارہ جام کمال دھڑے کا حصہ بن گئے بلکہ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ بی اے پی کے اراکین پارلیمنٹ اور اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے چہ مگوئیاں اس لیے شروع ہو گئی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بی اے پی کے پانچ اراکین قومی اسمبلی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جن کو جام کمال بلوچستان میں بھی تبدیلی کا کوئی کھیل کھیلنے کے لیے اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔

تاہم بی اے پی کے ترجمان اور وزیر برائے مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ظہور بلیدی خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں اس لیے وہ تحریک عدم اعتماد کی بات کر رہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی۔

تجزیہ کاروں کی مطابق بلوچستان میں جام کمال اور ان کے حامیوں کی تبدیلی کے لیے کوششوں کی کامیابی کے امکانات اسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب وہ حزب اختلاف میں شامل جے یو آئی (ف) کی حمایت حاصل کریں۔

بلوچستان کی نئی حکومت میں بھی ناراض اراکین

جب تک جام کمال نے گذشتہ سال اکتوبر میں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا تو اس وقت تک اعلانیہ طور پر بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی اچھی خاصی تعداد کے علاوہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، ایک رکن کے سوا تحریک انصاف کے باقی اراکین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اورجمہوری وطن پارٹی کے اراکین جام کمال کے ساتھ تھے۔

لیکن جب جام کمال نے استعفیٰ دیا تو پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی رہنما سردار یارمحمد رند، سلیم کھوسہ، میر عارف جان محمد حسنی اور دو تین اراکین کے سوا مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے باقی تمام اراکین نے قدوس بزنجو کا ساتھ دیا۔

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ یہ تمام اراکین وزیر یا مشیر بننے کے ساتھ ساتھ اچھے محکموں کے بھی خواہشمند تھے لیکن وزیر اعلیٰ کے لیے ہر حکومتی رکن کی خواہش کو پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔

‘وزیر اعلیٰ نے اہم محکمے ان اراکین اسمبلی کو دیے جنھوں نے اس وقت ان کا ساتھ دیا تھا جب کمال مضبوط تھے۔ ان میں جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش رہنے والے میر ظہور بلیدی بھی شامل تھے جن کو محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ دیا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کابینہ میں شامل نہ کرنے یا کرنے کی صورت میں کم اہمیت کے حامل محکمہ ملنے کی وجہ سے بہت سارے حکومتی اراکین ناراض ہوئے۔

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جام کمال کی کابینہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے چار اراکین اسمبلی میں سے ایک وزیر اور ایک مشیر تھا جبکہ ان کے پاس دو اچھے محکمے تھے لیکن قدوس بزنجو نے کابینہ میں عوامی نیشنل پارٹی کا صرف ایک رکن لیا اور ان کو زراعت کا محکمہ دینے کی بجائے خوراک کا محکمہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی اراکین اور وزرا نجی محفلوں میں یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے ان کے ساتھ جو وعدہ کیا اس کے مطابق ان کو محکمہ نہیں دیا۔

انھوں نے بتایا کہ بعض وزرا اور مشیروں کو ان کی خواہش کے مطابق محکمے نہ ملنے کے باعث ناراضی کی وجہ سے طویل عرصے تک کابینہ کا اجلاس تک منعقد نہیں ہوسکا۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بعض مقتدر حلقے بھی قدوس بزنجو کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ابھی تک کچھ ڈیلیور نہیں کر پائی۔

ظہور بلیدی کا کابینہ کے اجلاس سے واک آﺅٹ

جام کمال جب تک وزیر اعلیٰ رہے تو بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں ان کے خلاف سراپا احتجاج رہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ کہنا تھا کہ جام کمال نے ان کے حلقوں کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ ان کے حلقوں میں جو ترقیاتی منصوبے دیے وہ ان کی بجائے غیر منتخب لوگوں کے کہنے پر دیے۔

اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ میں جام کمال کی حکومت میں اسمبلی کے احاطے میں احتجاج پر مقدمات کے اندراج کے باعث حزب اختلاف کے اکثر اراکین نے دو ہفتے سے زائد بطور احتجاج پولیس تھانے میں گزارے۔

اس لیے جب جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورآزاد رکن نواب محمد اسلم خان رئیسانی پر مشتمل متحدہ اپوزیشن نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔

اس حمایت کے نتیجے میں گذشتہ ماہ بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں جن 30 ارب روپے کے نئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی گئی ان میں سے ایک بڑی تعداد حزب اختلاف کے اراکین کے حلقوں کی تھی اور یہ انہی کی تجویز پر شامل کیے گئے۔

وزیر منصوبہ بندی و ترقیات کی حیثیت سے ظہور بلیدی نے مالی سال کے آخری کوارٹر میں خطیر مالیت کی ان منصوبوں کوشامل کرنے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کے خلاف کابینہ کے اجلاس سے بطور احتجاج واک آﺅٹ بھی کیا تھا۔

اس حوالے سے ظہور بلیدی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘پلاننگ کمیشن کے مینوئل کے خلاف 30 ارب روپے سے زائد کی ترقیاتی منصوبوں کی تیسرے کوارٹر میں شامل کرنے پر کابینہ کے اجلاس میں کئی وزرا نے احتجاج کرنے کے علاوہ واک آﺅٹ کیا کیونکہ یہ نہ صرف سالانہ ترقیاتی بجٹ پر بوجھ ہوگا بلکہ تمام ترقیاتی منصوبوں کو بھی متاثر کرے گا۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور وزیرمواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران نے ظہور بلیدی کی جانب سے ان منصوبوں کی مخالفت کو بلاجواز قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے حلقے بھی بلوچستان کے عوام کے حلقے ہیں جن کو سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے نظرانداز کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی ان منصوبوں کے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان منصوبوں کے جو پیسے ہیں وہ حزب اختلاف کے اراکین کو جیبوں میں ڈالنے کے لیے نہیں دیئے جارہے ہیں بلکہ ان کے حلقوں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دیے جارہے ہیں۔

بدعنوانی کے سنگین الزامات اور ’تحریک عدم اعتماد لانے‘ کا اعلان

وزیراعلیٰ سے ان منصوبوں سمیت بعض دیگر امور پر اختلافات کے باعث ظہور بلیدی جام کمال خان اور ان کے حامی اراکین کے کیمپ میں شامل ہوگئے جس پر وزیر اعلیٰ نے ان سے منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ واپس لیا۔

محکمہ واپس لینے کے بعد میر ظہور بلیدی نے حکومت پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘صوبے کے عوام بے چینی اور پسماندگی کا شکار ہیں لیکن محکموں میں نوکریوں اور ٹھیکوں کی بولی لگی ہوئی ہے جن میں کچھ وزرا براہ راست ملوث ہیں۔ میں نے الحمدللہ اسمبلی کے فلور پر اور کابینہ کے اجلاس میں اس مکروہ عمل کی مخالفت کی۔ انشاءاللہ عوامی مفادات کو کسی کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان عوامی پارٹی میں بحث: اصل صدر میں ہوں، نہیں آپ ہٹ چکے ہیں اب میں ہوں۔۔

گوادر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ویڈیو: ‘مولانا یہ کیا ہو رہا ہے؟’

’بلوچ طلبا کی آوازیں دبانے والوں کے خلاف بغاوت کے پرچے ہونے چاہییں‘

بلوچستان میں سندھ سے تعلق رکھنے والے جوڑے کو ‘غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیا گیا

ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے فخر ہے کہ میں نے عوام کے حقوق اور صوبے کے مستقبل کا سودا کرنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔میں نے کابینہ کے آئینی فورم پر غریب صوبے کے 30 ارب کے وسائل کی بندر بانٹ پر آواز اٹھائی اوراس کرپشن کے بازار کا حصہ بننے سے انکار کیااب ایک رکن کے طور پر نااہل لوگوں کا محاسبہ کروں گا۔‘

وزیر مواصلات سردار عبدالرحمان نے ملازمتوں پر بھرتی اور ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی پرالزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ظہور بلیدی کو بہت زیادہ عزت دی اور سینیئر وزیر بناکر ان کو سب سے اہم محکمہ دیا لیکن ان کو راس نہیںآیا اور اب وہ بدعنوانی کا الزام لگارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘ظہور بلیدی بے بنیاد الزامات لگانا چھوڑ دے ورنہ اگر ہم نے منہ کھول دیا تو ان کو کہیں چھپنے کے لیے جگہ نہیں ملے گا۔‘

جام کمال کے کیمپ میں شامل ہونے کے بعد جام کمال،سردار یار محمد رند اور جام کمال کے حامی اراکین کے درمیان نہ صرف مشاورت میں تیزی آئی ہے بلکہ انھوں نے مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنماﺅں سے رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔

آپس کے اجلاسوں کے علاوہ انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدراورپارلیمانی رہنما اصغرخان اچکزئی سے بھی ملاقات کی۔

ان ملاقاتوں کے بعد ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماﺅں، اراکین اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کی قائدین سے مشاورت کے بعد قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا ‘بلوچستان میں تباہ کن طرز حکومت کے پیش نظر BAP کے مرکزی و صوبائی قائدین، ممبران سینٹ،صوبائی و قومی اسمبلی اوراتحادیوں کی مشاورت سے قدوس بزنجو کی بد عنوان اور نااہل حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی جو بلوچستان میں بدامنی، بے چینی اور بری طرز حکمرانی کا موجب بن گئی ہے۔‘

بی اے پی میں جام کمال کے حامی سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کررہے ہیں بلکہ حکومت کو جگارہے ہیں کہ اس کی جو آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت لوگوں کے مسائل کے حل،دھشت گردی کی روک تھام اور ترقی کے حوالے سے ناکام رہتی ہے تو ہم اس کے خلاف تمام آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ میر ظہور بلیدی دراصل وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں اس لیے وہ تحریک عدم اعتماد کی بات کررہے ہیں۔

‘جب جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس وقت بھی وہ وزیراعلیٰ کے امیدوار تھے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سوا وزیر اعلیٰ کے لیے کوئی اور بہتر امیدوار نہیں۔‘

انھوں نے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کے بقول جام کمال گروپ کی جانب سے آئندہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے میر سلیم خان کھوسہ امیدوار ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ چیلنج دیتے ہیں کہ حکومت کو ہٹانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی تاہم اگر ہو بھی تو ظہور بلیدی کی نصیب میں وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں ہوگا بلکہ جام کمال کے امیدوار میرسلیم کھوسہ ہوں گے۔

کیا قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی؟

سینیئر تجزیہ کار رضاالرحمان کا کہنا ہے کہ اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے جن میں سے ایک کی قیادت جام کمال کر رہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی سرپرستی وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو صورتحال بن گئی ہے اس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ اراکین اہمیت اختیار کرگئے ہیں جن میں سے تین کے بارے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ جام کمال کے ساتھ ہیں جبکہ دو قدوس بزنجو کے ساتھ۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور تحریک انصاف کے پارلیمنی رہنما سردار یارمحمد رند کی، جو کہ عمران خان سے ناراض ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری سے اس سلسلے میں ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جام کمال خان کی جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع سے بھی ملاقات ہوئی ہے جبکہ سردار یارمحمد رند کی مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات ہوئی۔

‘جام کمال کی یہ کوشش ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے بلوچستان میں بھی تبدیلی کے لیے کسی کھیل کا آغاز کرے اور جس طرح قدوس بزنجو اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر دھچکا دیا تھا اسی طرح وہ ان دونوں کو دھچکہ دینا چاہتے ہیں۔ اور وہ ان سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے خواہ وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک قدوس بزنجو کو جے یو آئی اور بی این پی سمیت متحدہ اپوزیشن کے 23اراکین کی حمایت حاصل رہے گی تو انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا ۔اس کے علاوہ انھیں نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناءاللہ زہری کی بھی حمایت حاصل ہے۔

‘قدوس بزنجوکو خود حکومتی اتحاد میں بلوچستان عوامی پارٹی اوراتحادی جماعتوں کے ان اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے جن کے پاس اچھے محکمے ہیں۔ ویسے تو انھیں بی اے پی اور دیگر حکومتی اتحاد میں اچھی خاصی اراکین کی حمایت حاصل ہے تاہم اگر یہ دس بھی ہوں تو حزب اختلاف کی حمایت کی وجہ سے قدوس کوکسی عدم اعتماد کی صورت میں خطرہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بارگین کی صورت میں جمیعت العلماءاسلام قدوس بزنجوکی حمایت کو چھوڑ کرجام کمال کے ساتھ مل جاتی ہے تو پھر قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔

شہزادہ ذوالفقار کا بھی کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں اگر اسے حزب اختلاف کی جماعتوں میں کسی کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس وقت اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے اراکین میں سے بہت سارے لوگ قدوس بزنجو سے ناراض ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ اکیلے ان کے بل بوتے پر قدوس بزنجو کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو۔

’اس وقت جو ناراض اراکین ہیں اگر ان کے ساتھ حزب اختلاف سے جے یو آئی یا کسی اور جماعت کی حمایت حاصل کی جائے تو پھر اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ظہور بلیدی کی وزیر اعلٰی سے بغاوت سے جام کمال کا پوزیشن بہتر ہوا ہے اوربلوچستان میں صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ان کی یہ کوشش ہے کہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے اراکین کے حوالے سے ایک اچھی بارگین کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments