اقتدار کی چکی میں پستے عوام


تاریخ اپنے آپ کو کہیں اور دہرائے یا نہ دہرائے پیارے پاکستان میں دہرانے سے چوکتی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہم پون صدی سے ایک دائرے کے سفر میں ہیں۔ مسافت میں ہیں مگر منزل وہی نقطہ آغاز، جہاں سے چلے تھے وہیں آ رہے۔

پچھلے ایک ہفتے کے وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے کا مشاہدہ کیا جائے تو چند چیزیں حیران کن حد تک مماثل ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کہانی کے سکرپٹ رائٹر کو محض کردار تبدیل کرنے پڑتے ہیں کہانی وہی رہتی ہے۔

2013 کے انتخابات سے قبل خان صاحب ٹی وی پروگرامز میں دو تہائی اکثریت اور کلین سویپ لکھ کر دیا کرتے تھے لیکن سیٹیں لے پائے 30۔ بعد میں چار حلقے کھولنے کا مطالبہ لے کر پارلیمان آئے اور وہاں سے امپائر کی انگلی کی تلاش میں راقم الحروف کو ساتھ لے کر ڈی چوک پہنچے۔ ڈی چوک دھرنے میں جانے کی داستان بھی ایک الگ تحریر کا تقاضا کرتی ہے جو پھر کبھی۔ اپنی شرمندگی کا کھل کر اظہار کرنا چاہوں گا۔ ڈی چوک پر خان صاحب کا 24 سے 48 گھنٹے میں امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا ”لندن پلان“ 127 دن تک محیط ہو گیا۔ خان صاحب تو ارب پتی آدمی ہیں بیٹھ سکتے ہیں میں تو 5، 6 دن میں اپنی مزدوری پر واپس آ گیا۔

زمانے نے کروٹ لی اور خان صاحب 2018 کے انتخابات میں چند ووٹوں کی اتحادی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گئے اور میری طرح ان کے بہت سے جذباتیت کا شکار چاہنے والوں کی بہت ساری غلط فہمیاں دور ہونے لگیں جن کو میں ایک کتاب کی شکل دینے کا خواہاں ہوں کہ بقول فراز۔

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

ان تمام غلط فہمیوں کو اگر ایک ہی جگہ مرکوز کرنا مطلوب ہو تو یہ ایک ہی کافی ہے کہ ”اگر اوپر حکمران ٹھیک ہو تو نیچے تمام خود بہ خود ٹھیک ہو جاتے ہیں“ ۔ وقت نے ثابت کیا کہ ہوا اس کے الٹ۔ اوپر بندہ ٹھیک کیا آیا نیچے سب کچھ پہلے سے بھی خراب ہو گیا۔ عام آدمی کی زندگی بری طرز حکومت اور مہنگائی کے باعث بری طرح متاثر ہوئی۔ صرف مہنگائی ہی پر ایک ویڈیو میں قائداعظم کے چودہ نکات کی طرح خان صاحب کے 14 متضاد بیانات پر سر پیٹ چکا ہوں۔ مہنگائی کا بیانیہ کنٹرول کرنے کے مختلف لاروں سے ہوتا ہوا آخر کل حافظ آباد میں یہ کہہ کر خدا حافظ ہو گیا کہ ”میں تو آلو ٹماٹر کے لیے آیا ہی نہیں“ یعنی زندگی کو جفا کی پگڈنڈی پر پاؤں گھسٹنے کے لیے جس روزمرہ توانائی کی ضرورت ہے خان صاحب اس کے لیے تشریف نہیں لائے۔

دوسری بات وہ جو ان کا دعوی ہے کہ وہ جس کے لیے آئے ہیں وہ اوپر ٹھیک آدمی پچھلوں کو چور چور کہتا رہا اور اس کی اپنی ناک کے نیچے آٹا، چینی، دوا، پیٹرول اور گیس میں اربوں روپے کے کھانچے چلتے رہے لیکن وہ تحقیقات کروا کر ان سے اپنی نیک نامی کے سوا کچھ نہ کر سکا اور میرے جیسے لوگوں کی امیدیں ٹوٹتی رہیں۔

اس دور میں صرف حکومت ہی نہیں ماشااللہ اپوزیشن بھی مقابلے پر نالائقی کے ثبوت فراہم کرنے پر تلی رہی۔ اپوزیشن نے مکمل طور پر ذاتی نوعیت کی سیاست کرتے ہوئے اپوزیشن کے کردار کا وہ خلا پیدا کیا جس سے عوام حکومتی نااہلی، مہنگائی اور بری طرز حکومت تلے دب کر فنا ہو گئی اور اپوزیشن میں کہیں ذاتی نوعیت کی شاہی کھینچا تانی چلتی رہی اور کہیں اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ”نئی دلہن“ کی تیاری جو ”پیا من“ بھا جائے۔ عوام کی یہ حسرت ہی رہی کہ ان 75 سالوں میں کبھی عملی طور پر وہ بھی ”پیا“ بن سکتے۔ بہرحال ایسی ہزاروں خواہشوں کی قبروں پر حسرتوں کے کتبے ہی پاکستان کی تاریخ ہیں۔ یہاں مورخ نے تاریخ نہیں لکھی کتبے لکھے کتبے۔

مختلف مواقع پر قرآن پر حلف لے کر بھی اپنے بندے پورے نہ کر پانے والی اپوزیشن ”سٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے“ کے معنی خیز بیانیے کے ساتھ عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا چکی ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی فضا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عمران خان صاحب جو سری لنکا میں کھڑے ہو کر ایک بہترین واعظ کی طرح انہیں بتا سکتے ہیں کہ معاشی بہتری کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن بس ایک محض واعظ ہی کی طرح اپنے ملک میں ساڑھے تین سال میں ایک تقریر بھی ایسی نہ کر پائے جس میں منتقم مزاجی کے زہر میں گھلی انا کی سیڑھی سے ایک زینہ بھی نیچے اترے ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح منڈی بہاؤ الدین میں ایک جلسے میں سیاست اور مذہب کے آمیزے میں گندھی منافرت پھیلانے کا آغاز کیا تو طالب علم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ہم سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وہی ہوا۔ میلسی جلسے میں خان صاحب نے بحیثیت وزیراعظم خود کو قوم کا باپ کہا اور پھر جلسے میں آئی ہوئی قوم کے بچوں سے فضلو کہہ کر ڈیزل کے نعرے لگوائے اور پھر کہا جنرل باجوہ نے منع کیا تھا لیکن میں کیا کروں لوگ ایسا کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد تو ایک آئینی معاملہ ہے اس کے لیے اتنی مار دھاڑ اور ہنگامہ آرائی کیوں۔ اگر یہ واقعی جمہوریت کے کسی آخری درجے پر براجمان نظام بھی ہوتا تو نہ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب یہ کہتے کہ عدم اعتماد کے بعد سارے چور ڈاکو میرے نشانے پر ہوں گے اور نہ اپوزیشن میں بھی فضل الرحمان صاحب جو اقتدار سے باہر ایک ماہی بے آب ہوتے ہیں وہ دھمکی دیتے کہ اگر عدم اعتماد ناکام ہوئی تو معاملات گلی کوچوں تک جائیں گے اور ملک انارکی کی طرف بڑھے گا۔

اگر غور کیا جائے تو پچھلی ایک دہائی میں سکرپٹ ایک ہی ہے، سکرپٹ رائٹر بھی بیانات بھی دھمکیاں بھی۔ بس کردار بدل رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے دھرنا دیا تھا تو وہ ملک کو بند کرنے کی بھڑکیں مارتے تھے اور ان کے ساتھ موجود شیخ رشید جلا دو مٹا دو مار دو کی باتیں کرتے تھے اور اس وقت کے حکمران اور آج کی اپوزیشن حکمرانی کو تا ابد سمجھتے ہوئے جواباً ریاستی طاقت استعمال کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب کی طاہر القادری صاحب کے خلاف اشتعال انگیز تقریر اور پنجاب حکومت کا ماڈل ٹاؤن آپریشن ہماری سیاسی تاریخ کے چہرے پر ایک سیاہ داغ ہیں۔

آج دیکھا جائے تو کہانی ہو بہ ہو وہی معلوم ہوتی ہے صرف کرداروں کا آپس میں تبادلہ ہوا ہے حکومت اپوزیشن بن گئی اور اپوزیشن والے حکومت میں آ چکے۔

افسوس صد افسوس ہمارا دائرے کا سفر اسی لیے ختم نہیں ہوتا کہ یہ سکرپٹ عوام کے ہاتھ کبھی نہیں آتا۔ اگر یہ نام نہاد جمہوریت واقعی سلطانیٔ جمہور ہوتی تو مقتدرہ کی بجائے عوامی نمائندے عوام کو جوابدہی کے خوف یا فرض کے زیر اثر اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دیتے۔ لیکن دکھی دل سے کہنا پڑتا ہے 75 سال سے وہی دائروں کا سفر جاری ہے ہمارے ہاں سیاستدانوں کو سکرپٹ پکڑا دیا جاتا ہے اور وہ مستقبل میں حکمرانی کے اجر کی قیمت پر اپنا اپنا کردار بڑھکوں دھمکیوں اور افراتفری پھیلا کر نبھانے لگتے ہیں اس سفاک اور سنگدل کاروباری نظام ریاست و سیاست کی چکی کے دو پاٹوں میں حکومت اور اپوزیشن میں پسنا ہم عوام کو ہی پڑتا ہے جس کو پیس کر اونچے اونچے ایوانوں میں اقتدار کے دسترخوانوں پر چن دیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments