ہندوتوا کے نظریے کا ارتقا


ہندوستان لسانی، ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک متنوع معاشرہ ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ انڈیا کے بانی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مختلف فرقوں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں کو آپس کے اختلافات بھلا کر نئے ملک میں اتحاد سے رہنا چاہیے، اور ہندوتوا کا نظریہ 2014 میں مودی سرکار کے حکومت میں آنے کے بعد اچانک سے منظر عام پر آیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کی شاخیں آزادی سے پہلے کے ہندوستان تک جاتی ہیں۔

ہندوتوا نظریہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے میں تو آسانی پیدا کرتا ہی ہے لیکن یہ ثقافت کی بنیاد پر نفرت پھیلانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ آج کل کی سیاست میں اس کا کردار سمجھنے کے لیے تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ بطور لفظ اس کے استعمال کا آغاز ساورکر نے اس وقت کیا جب برصغیر کے لوگ برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ کشیدگی اور جنگ کے دنوں میں یہ نظریہ پیش کرنے کا مقصد ہندوستان کے لوگوں کو ایک نئی پہچان دینا اور بیرونی طاقتوں کو خود سے الگ ثابت کرنا تھا۔

اس نظریے کے پیچھے بنیادی طور پر ہندو نسل اور ثقافت کی برتری کو برقرار رکھنے اور دوسری قوموں اور ثقافتوں کے اثرات سے بچا کر رکھنے کی خواہش چھپی ہوئی ہے۔ ہندو آریائی نسل کے افراد کو باقی مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بہتر ماننے کا یہ تصور نہ ہی تو نیا ہے اور نہ ہی اس کی ابتدا 1923 میں ساورکر کی جانب سے ہندوتوا اصطلاح پیش کرنے کے بعد ہوئی۔

اس اصطلاح کے عمل میں لائے جانے سے بہت پہلے جب البیرونی محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان گئے تو انہوں نے اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ ہندو مسلمانوں اور باقی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ”ملیچھا“ یعنی کہ ناپاک اور کم تر پکارتے ہیں۔ البیرونی نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ جتنے بھی ہندوستانیوں سے ملا، ان کے نزدیک ان کا مذہب، قوم اور ملک باقی تمام مذاہب، اقوام اور ممالک سے بالاتر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں ہندوؤں کو مغرور بلایا ہے۔

شروع میں ملیچھا کا استعمال غیر مہذب زبان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا جاتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس لفظ کے استعمال کو بڑھا کر ان تمام افراد کا ذکر کیا جانے لگا جو کہ ہندو نہیں تھے۔

ساورکر نے اپنے پمفلٹ میں اسی فلسفے کو سیاسی لبادہ اوڑھا کر آریائی نسل اور ثقافت کے تقدس کے دفاع کے لئے تمام بیرونی طاقتوں کے خلاف نظریہ قرار دیا ہے۔ اس کے منصوبوں میں یورپیوں پر نوآبادیاتی نظام مسلط کرنا، مسلمانوں پر حملے کرنا، اور عیسائیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کروانا شامل تھے۔

کچھ مصنفین کا خیال ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنم لینے والا کوئی اور نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوتوا میں تبدیل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ بہت پہلے سے ہی ہندوؤں کی سیاسی طاقت کو مستحکم کرنے کے ارادے سے بنایا گیا تھا۔

ساورکر نے یہ نظریہ نوآبادیات کے نتیجے کے طور پر ہندوستانیوں میں پیدا ہونے والے ثقافتی اور سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے پیش کیا۔ لیکن تقسیم کے بعد چونکہ بنیادی مسئلہ ختم ہو گیا تو ہندوتوا کے ماننے والوں کا دھیان اقلیتوں یعنی کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو ثقافت اور پہچان کا پابند بنانے پر چلا گیا۔ یہ نظریہ ادھر ادھر کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہندوؤں اور ہندوستان کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک متحد شناخت بنا کر سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ کچھ مصنفین کے مطابق ہندوتوا کے تینوں عوامل (مشترکہ قومیت، مشترکہ نسل، اور مشترکہ تہذیب) بہت دھیان سے چنے گئے ہیں اور ان کا مقصد ہندوستان کے علاقے میں جنم لینے والے چاروں مذاہب (ہندو مت، بدھ مت، جین مت، اور سکھ مت) کو ملا کر ایک متحدہ شناخت بنانا ہے۔

برطانوی سامراج اور مغربی ثقافت سے لڑنے کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستان کے لوگوں میں ایک قومیت کا احساس پیدا کیا جائے، ماننا پڑے گا کہ یہ نظریہ اس حساب سے کافی منافع بخش ثابت ہوا۔

ساورکر نے نہ صرف اس بات کی وضاحت کی کہ حقیقی ہندو کون ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ہندوؤں کے لیے ممکنہ خطرات کی بھی نشاندہی کر دی۔ اس کے مطابق ہندوؤں کے اتحاد کے لیے بیرونی خطرہ برطانوی سامراج تھا، ساتھ ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کو اندرونی خطرہ قرار دیدیا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہندوستان سے باہر موجود ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر ان کی وفاداریاں بٹ جاتی ہیں جو کہ ساورکر کے قوم پرستی کے نظریہ کے خلاف جاتا تھا، یوں مسلمان دشمن کے ساتھ ساتھ ممکنہ غدار بھی قرار دے دیے گئے۔

ساورکر مسلمانوں کو حملہ آور اور غاصب تو مانتا ہی تھا، وہ اچانک سے دشمن اور غدار بھی سمجھے جانے لگے۔ اسی وجہ سے تقسیم کے بعد انہیں اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے ہندو ثقافت کے رنگ میں رنگنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔

ہندوتوا کے پیروکار نہ صرف معاشرے کی تنظیم نو میں مصروف ہیں بلکہ وہ پورے ہندوستان کو ثقافتی، سماجی اور سیاسی طور پر بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ مقصد ہندو شناخت کو روحانی رنگ دے کر حاصل کیا جا رہا ہے۔ روبنسن کے مطابق ٹی وی اور اخبارات میں ہندو مت پر مبنی ڈراموں اور کالموں کی فراوانی عوام میں ہندو مذہب کو روحانی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ”مقدس نعرے“ ، ”مقدس کتابیں“ ، ”حقیقی تعلیم“ جیسے الفاظ استعمال کر کے معاشرے میں ہندو مذہب پھیلانے کی ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ ہندومت ہر گھر تک پہنچ جائے۔ معاشرے میں ہندوتوا نظریات پھیلانے کا ایک اور طریقہ سنگھ پریوار ہے، جو کہ وسیع پیمانے پر کام کرنے والے ہندو قوم پرست تنظیموں کے نیٹ ورک کا نام ہے۔ مختلف تنظیمیں جیسا کہ آر ایس ایس، بجرنگ دل، شیو سینا اور بی جے پی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ سیاسی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ تنظیمیں چھوٹی سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ اثر کن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں کے ہر کچھ عرصے بعد موضوع بدل جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ تنظیمیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسلسل اور بلا تعطل کام کرتی رہتی ہیں۔

پانیکر کا ماننا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے بہت بڑی تعداد میں ثقافتی تنظیموں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جن کا واحد مقصد ہندو فرقہ پرستی پھیلانا ہے۔ سماجی سطح پر فرقہ واریت کی گہرائی تک سرایت کرنے کی ایک بڑی وجہ ان تنظیموں کی ثقافتی اور سیاسی معاملات میں مداخلت ہے۔ یہ تنظیمیں طویل عرصے سے ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے کر فرقہ واریت اور مذہب کی بنیاد پر انتشار پھیلا رہی ہیں۔

ستم تو یہ ہے کہ ان تنظیموں کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے تعداد کا علم ہونا ضروری ہے لیکن ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں جس سے ان کی تعداد معلوم کی جائے۔ یہ تنظیمیں ہر شعبے پر احاطہ کیے بیٹھی ہیں، چاہے وہ شعبہ فکری ہو، ثقافتی، تعلیمی، تاریخی، یا موسیقی اور میڈیا سے تعلق رکھتا ہو۔ ہندوستان بھر میں بیس ہزار سکول اور تقریباً ہر زبان میں ادب چھاپنے کے لیے متعدد اشاعتی ادارے، ادبی انجمنیں، ڈرامہ کلب، ماحولیاتی گروپ، خواتین کی تنظیمیں، تزئین و آرائش کی کمیٹیاں وغیرہ اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

ان تمام تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی دن رات کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی بی جے پی آج ہندوستان میں حکومت میں ہے۔ انتہا پسندی کو چھوٹے سے دھارے سے نکال کر انتخابی سیاست تک پہنچانے کی ذمہ داری انہی پر آتی ہے اور اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے اقلیتوں کے خلاف مظالم کی صورت میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

عائشہ اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عائشہ اقبال

عائشہ اقبال انگریزی ادب اور لسانیات کی شاگردہ ہیں. انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لکھتی اور آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ فراغت کے اوقات مصوری، شاعری اور کتاب بینی سے کاٹتی ہیں۔

ayesha-iqbal has 5 posts and counting.See all posts by ayesha-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments