روس یوکرائن جنگ جاری ہے


روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اب روس نے یوکرائن اور پولینڈ کے درمیان سرحد کے پاس ایک فوجی اڈے کو بھی نشانہ بنایا۔ اس صورت حال سے گھبرا کر لاکھوں کی تعداد میں لوگ یوکرائن کے مخلتف علاقوں سے نکل رہے ہیں کیوں کہ روسی افواج کا زمینی حملہ اب شہری آبادی کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

صرف ایک شہر ماریو پول میں دو ہفتے کے محاصرے میں تقریباً دو ہزار یوکرائنی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ ماریو پول بحر اسود میں واقع ایک بندر گاہ ہے جس کا روسی افواج نے محاصرہ کر رکھا ہے۔

یوکرائن کو اس نازک صورت حال تک پہنچانے میں روس اور امریکہ دونوں کا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے روس کو یہ ضمانت دینے سے انکار کیا ہے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا اور روس نے اسی بہانے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ اب امریکہ نے مزید بیس کروڑ ڈالر کے ہتھیار یوکرائن کو فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں ٹینک شکن گولے اور طیارہ شکن میزائل شامل ہوں گے جب کہ روس کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی امداد کو یوکرائن نہیں پہنچنے دیا جائے گا اور یہ امداد لانے والے قافلوں پر اور جہاں یہ ہتھیار رکھے جائیں گے ان فوجی اڈوں پر براہ راست بمباری کی جائے گی۔

اس کے مقابلے میں نیٹو ممالک کا ردعمل بڑا ڈھیلا ڈھالا اور دھیما رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ یوکرائن کی امداد میں تاخیر کی جا رہی ہے بلکہ وہاں سے آنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال میں بھی کوتاہی برتی جا رہی ہے۔

یوکرائن سے نکلنے والے پناہ گزین پولینڈ کے علاوہ دیگر سرحدی ملکوں جیسے سلواکیہ، رومانیہ اور ہنگری وغیرہ بھی جا رہے ہیں جو سب مشرقی یورپ کے ملک ہیں اور جنہیں مغربی یورپ کے ممالک مثلاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ کی مدد کی فوری ضرورت ہے مگر اس مدد میں افسر شاہانہ رویے حائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جس کا نقصان مہاجرین کو ہو رہا ہے۔

یوکرائن کے اندر جن شہروں پر بمباری کی گئی یا جہاں روسی افواج نے محاصرے کر رکھے ہیں وہاں ضروریات زندگی کی شدید قلت ہو چکی ہے اور حتیٰ کہ پانی کی فراہمی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

ایسے شہر اور قصبے بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں اور بجلی اور موبائل فون کے ٹاور بھی کام نہیں کر رہے جس کے باعث وہاں کے محصور لوگ بیرونی دنیا سے رابطہ بھی نہیں کر سکتے اور نا ہی وہاں کی تازہ ترین صورت حال کی ویڈیو یا تصاویر باہر بھیج سکتے ہیں ان حالات میں مرنے والوں کی تدفین کے لیے بھی عزیز و اقارب کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے اور اکثر جگہوں پر اجتماعی قبریں بنا کر کئی کئی لوگوں کو ایک ہی قبر میں دفنانا پڑ رہا ہے۔

اسی طرح یوکرائن کے مختلف علاقوں میں یوکرائنی افواج کے دستے بھی محاصرے میں آچکے ہیں جن سے روسی افواج غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر رہی ہیں جب کہ یوکرائن کے صدر بار بار اپنے عوام اور افواج سے کہہ رہے ہیں کہ ہم آخر دم تک لڑیں گے یعنی اس صورت میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان یوکرائن کو برداشت کرنا پڑے گا اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ کہیں روس کیمیائی ہتھیار نہ استعمال کرے۔

اگر روس کیمیائی ہتھیار استعمال کرتا ہے تو ممکن ہے کہ جنگ جلد ختم ہو جائے مگر اس کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کے بعد بین الاقوامی طور پر روس دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات عالمی عدالت میں بھی چلائے جا سکیں گے۔

کیمیائی اور حیاتیاتی یعنی بایولاجیکل ہتھیاروں پر دنیا بھر میں پابندی ہے لیکن پھر بھی کئی ممالک نہ صرف ایسے ہتھیار بناتے ہیں بلکہ استعمال کے لیے بھی تیار رکھتے ہیں۔

ادھر برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ جو برطانوی لوگ یوکرائن سے آنے والے پناہ گزینوں کو اپنے گھروں میں رکھیں گے انہیں برطانوی حکومت معقول معاوضہ ادا کرے گی۔ اس طرح ظاہر ہے بہت سے برطانوی گھرانے راضی ہوجائیں گے اور یوکرائن کے لوگ اب مغربی یورپ اور برطانیہ کہ بارے میں بہت مثبت خیالات لے کر رہیں گے۔

اسی طرح یوکرائن کے بچے جو برطانوی یا دیگر یورپی ممالک میں پلے بڑھیں گے ان کے دل میں روسیوں کے لیے شدید نفرت پروان چڑھے گی۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کر کے نہ صرف اپنا اور اپنے عوام کا نقصان کیا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسی مثالیں قائم کردی ہیں جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکے گا۔ آنے والے عشروں اور ممکن ہے صدیوں تک یہ نفرتیں روس کے لیے اور اس کے عوام کے لیے مغربی یورپ میں پروان چڑھی گیں۔

پہلے ہی مشرقی یورپ کے ممالک سوویت دور کی تلخ یادیں اب تک نہیں بھلا پائے گو کہ جرمنی نے اپنے ہٹلر کے دور کے بھیانک ماضی کے داغ دھو دیے ہیں۔ اصل مسئلہ اب روس کے سامنے یوکرائن کے دارالحکومت کیف پر قبضے کا ہے۔ روسی افواج اس کوشش میں ہیں کہ ڈرا دھمکا کر یوکرائن کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے لیے مجبور کر دیا جائے لیکن نہ یوکرائن کے صدر اور نہ ہی افواج ایسا کرنے پر تیار ہیں۔

اگر کیف کے لیے جنگ ہوتی ہے تو یہ شہر جو یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں ہے اور اس میں عظیم تاریخی ورثہ موجود ہے بڑی تباہی کا شکار ہو گا۔ اور روسی افواج نے اگر ایسا کیا تو تاریخ میں ان کا نام ایک بار پھر کالے حروف سے لکھا جائے گا۔ روس کے پاس ایک اور متبادل یہ موجود ہے کہ وہ مشرقی یوکرائن کے مقبوضہ علاقوں میں آزاد مقامی حکومتیں قائم کردے اور وہاں روسی افواج کے طویل مدت کے لیے قیام کی تیاری کرے۔

اس طرح مغربی یوکرائن اور کیف تباہی سے بچ سکتے ہیں مگر یہ کوئی دائمی حل نہیں ہو گا اور پورا خطہ مسلسل جنگ کے دھانے پر کھڑا رہے گا۔

روس جن شہروں پر قبضہ کر رہا ہے وہاں کے مقامی رہنماؤں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کیف سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیں اور روس کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیں یا کم از کم روس کے خلاف کھڑے نہ ہوں لیکن تا حال کسی بھی مقبوضہ شہر کی انتظامیہ یا مقامی رہنماؤں نے ایسا نہیں کیا ہے۔

سب سے برا حال یوکرائن کے ہسپتالوں اور ذہنی امراض کی علاج گاہوں کا ہے جہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کئی کینسر کے ہسپتالوں کے مریض بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ کچھ کو پولینڈ وغیرہ منتقل کر دیا گیا ہے مگر بہت سے مریض نہ نکل سکے۔ مجموعی طور پر مہاجرین کی تعداد بیس سے پچیس لاکھ بتائی جا رہی ہے۔

اس دوران میں فیس بک نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اب تک اس کی پالیسی نہ تھی کہ کسی بھی طرح کے تشدد پر اکسانے والی پوسٹ لگانے کی اجازت دی جائے مگر اب فیس بک کا کہنا ہے کہ روسی افواج اور صدر پوتن کے خلاف تشدد تک پر اکسانے والی پوسٹ کی اجازت ہوگی۔ اس کے جواب میں روس نے کہا ہے کہ وہ فیس بک پر روس میں پابندی لگا سکتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یوکرائن کے ایٹمی پلانٹ کا ہے جن میں کچھ چل رہے ہیں اور کچھ بند ہوچکے ہیں مگر ان میں سے کسی بھی وقت تابکاری کا اخراج ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں پورے یورپ کو خطرے کا سامنا ہو گا۔

مثال کے طور پر چرنوبل اور زاپاروژے کے پلانٹ کسی بھی وقت ایٹمی ذرات کا اخراج شروع کر سکتے ہیں۔ چرنوبل کا پلانٹ تو انیس سو چھیاسی کے حادثے کے بعد سے بند ہے مگر اب بھی اس پر حملے یا قریبی دھماکے کی صورت میں تابکاری خارج ہو سکتی ہے۔ زاپاروژے کا پلانٹ یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی پلانٹ ہے جو روسی افواج کے قبضے میں آ چکا ہے اور وہاں سینکڑوں روسی فوجیوں کو تعینات بھی کر دیا گیا ہے۔

اس تنازعہ کا ایک مذہبی پہلو بھی سامنے آ رہا ہے جس کے تحت ایمسٹرڈم کے آرتھوڈوکس چرچ نے ماسکو کے مذہبی پیشوا سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ یاد رہے کہ روسی آرتھوڈوکس چرچ کی ذیلی تنظیمیں یورپ کے کئی ممالک میں ہیں جہاں مقامی لوگ روسی آرتھوڈوکس چرچ کے عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر اب روسی کلیسا بھی اپنا اثر و و رسوخ کھو رہا ہے۔

خود روس کے اندر عوام جنگ کے خلاف ہیں اور مسلسل مظاہرے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پوتن کے پولیس اہلکار ایسے مظاہرین کو پکڑ لیتے ہیں اور ان پر وطن سے غداری کے مقدمے چلاتے ہیں۔ روس کے حملے کے ردعمل میں اسکینڈے نیویا کے ممالک بھی نیٹو میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مثلاً سویڈن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی جلد نیٹو میں شامل ہو جائے گا۔ اس پر روس نے ناراضی کا اظہار کیا ہے مگر سویڈن اس طرح کے کسی دباؤ کو برداشت نہیں کرے گا کیوں کہ اس نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ سویڈن ایک آزاد ملک ہے اور اسے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح فن لینڈ نے بھی نیٹو میں شمولیت کے لیے رابطے کیے ہیں۔ یعنی روس نے حملے کی غلطی کر کے وہ ممالک بھی جو ممکنہ طور پر غیر جانبدار رہتے انہیں بھی نیٹو کی چھتری کے تلے آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس طرح پوتن کی آمریت پورے یورپ کو نیٹو میں دھکیل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).