قیصر و کسریٰ بالمقابل خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروقؓ


خلیفہ ہشام بن عبدالمالک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، اس کی نظر ایک جوان پر پڑی جس کا لباس غریبی کا مظہر تھا مگر چہرے پر وقار اور جاہ و جلال کی کیفیت تھی۔ خلیفہ نے اپنے رفقاء سے پوچھا اس نوجوان کے بارے میں بتاؤ مقربین نے بتایا اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا پوتا ہے، خلیفہ نے آپ کو بلوایا اور بتایا کہ میں تمہارے دادا حضرت عمر بن خطابؓ کا مداح ہوں اور مجھ کو آپ کا حال دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی، یہ میرے لئے بہت بڑی خوشی اور سعادت ہوگی اگر میں آپ کے کسی کام آ سکوں، آپ اپنی ضروریات بتائیں میں آپ جو مانگیں گے آپ کو دوں گا۔

نوجوان نے خلیفہ کو جواب دیا کہ اے خلیفۃ المسلمین میں اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھر ہوں یہاں پر غیر اللہ سے مانگتے ہوئے مجھ کو شرم آتی ہے۔ خلیفہ ان کے پر متانت چہرے کا رعب دیکھ کر خاموش ہو گیا بعد میں اپنے غلام کو کہا کہ جیسے یہ جوان عبادت سے فارغ ہوں اور بیت اللہ سے باہر آئیں آپ مجھ کو ملائیں، جب حضرت سالم عبادت سے فارغ ہو کر بیت اللہ سے باہر نکلے تو خلیفہ کے ہرکارے نے پیغام پہنچایا کہ خلیفہ آپ سے ملاقات کا منتظر ہے، آپ خلیفہ کے پاس پہنچے تو خلیفہ نے کہا اب تو آپ بیت اللہ میں نہیں ہیں تو اب بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کی مدد کروں۔

حضرت سالم بن عبداللہؒ نے پوچھا آپ میری کون سی ضروریات پوری کر سکتے ہیں، دنیاوی یا آخرت کی، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا دنیاوی کیونکہ دنیاوی مال و متاع کا میں کر سکتا ہوں مگر آخرت تو میرے بس میں نہیں ہے، اس پر حضرت سالم بن عبداللہؒ بولے اے امیر المومنین دنیا تو میں نے کبھی خالق حقیقی سے بھی نہیں مانگی جو تمام جہانوں کا اور اس دنیا کا مالک و ملجاء ہے تو آپ سے کیا مانگوں گا، میری پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے اگر آپ اس سلسلے میں میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو بتائیں، ان کی یہ بات سن کر خلیفہ حیران و ششدر رہ گیا اور پھر یوں بولا نوجوان یہ تو نہیں تیرے اندر سے خون فاروقی بول رہا ہے، اور پھر حضرت سالم بن عبداللہؒ خلیفہ وقت کو حیران پریشان چھوڑ کر روانہ ہو گئے، اس تمہید سے یہ بتانا مقصود تھا کہ جب پوتا اتنی غیرت ایمانی رکھتا ہو توان کے عظیم الشان دادا کی شان کا کیا عالم ہو گا، جو کہ صحابہ کرام ؓ میں فضیلت کے حامل اور خلفائے راشدین کے مقام و منبر پر فائز جن کے ایمان کی دعاء خود نبی رحمتﷺ نے مانگی، وہ عمر جن کا عدل و انصاف دنیا میں ضرب المثل ہے، میرے آج کے کالم کے ممدوح ہیں جنہوں نے اس وقت کی عالیشان سلطنتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا جن میں قیصر و کسریٰ بہت نمایاں مقام کی حامل تھیں۔

میں ابتدا میں فارس جس کو آج ایران کہتے ہیں اور جس کے شہنشاہوں کو کسریٰ کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ان کی اسلامی سلطنت سے مڈبھیڑ کا ذکر کروں گا۔ آج سے تقریباٰ ڈیڑھ ہزار سال پہلے دنیا کے نقشے پر دو عظیم قوتیں موجود تھیں جن کو بلاشبہ اس وقت کی سپر پاورز کہا جاسکتا ہے، ایک روم اور دوسرا فارس جس کو آج کل ہم ایران کے نام سے جانتے ہیں۔ اس دور میں ایران مجوسیوں یعنی آتش پرستوں کا مرکز تھا، ان کا عقیدہ تھا کہ آگ ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے اس لئے اس کو خدا کا درجہ دیا گیا تھا، فارس کے آتش کدوں میں ہزار سال سے آگ روشن رکھی گئی تھی، ایران کے چھوٹے بڑے معبدوں میں ہر وقت آگ روشن رکھی جاتی تھی اور پجاری بھڑکتے ہوئے شعلوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر مناجات کرتے رہتے تھے کہ اے ہمارے معبود (معاذ اللہ) تو ہماری مدد فرما اور در فش کاویانی کو آسمانوں کی رفعتوں تک بلند کردے اور ہمارے دشمنوں پر ہمارا غلبہ اور ہیبت طاری کر دے، قارئین کے اذہان میں سوال اٹھ رہا ہو گا کہ یہ در فش کاویانی کیا ہے، یہ مجوسیوں کا مقدس پرچم تھا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جس جنگ کے میدان میں در فش کاویانی لہرائے گا وہاں دشمن کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجوسی عظیم الشان فتح سے ہمکنار ہوں گے۔

یہ 14 ہجری کا یادگار سال تھا کہ جب اللہ کے دین کو تیزی سے غلبہ عطاء ہواء کہ دشمنان دین خاص طور پر مجوسی جو کہتے تھے کہ یہ مقدس آگ کے شعلے کبھی سرد نہیں ہوں گے اور ان کو بجھانے والی کوئی قوت آج تک پیدا نہیں ہوئی جب دین مبین کے پیروکار صراط مستقیم پر کاربند رہتے ہوئے دلوں کو ایمان کی حرارت سے منور کرتے ہوئے ولولوں سے لبریز جنگی رجز پڑھتے ہوئے اور خدائے لم یزل کی تسبیح و تحلیل کرتے ہوئے فاران کی چوٹیوں سے نیچے اتر کر ایران کے میدانوں میں اپنے گھوڑے دوڑانے لگے تو باطل کے ایوان لرزہ براندام ہو گئے، اسلامی سپاہ کی جرات و ہمت کے آگے بڑے بڑے سورما کھیت رہے ہر چیز خس و خاشاک بن کر اڑتی چلی گئی، کئی کاسہ سر جو غرور کا پیکر تھے اپنے تن سے جدا ہو گئے، شہنشاہ نوشیروان کی قیمتی یادگاریں مٹی سے بھی ارزاں ٹھہریں، مغرور بادشاہوں کے نسب نامے ورق ورق ہو کر بکھر گئے، ہر طرف صدائے بیکراں تھی یا نفسانفسی کا عالم تھا، ان کی مشرکیت کی نشانیاں نابود ہو گئیں، فسق و فجور کا نام لیوا بھی باقی نہ رہا، ایران کی فضاؤں میں بہت دنوں تک یہ ہی صدا گونجتی رہی ہے کوئی اور، ہے کوئی اور پھر وقت کے نقیب نے آگے سے صدا بلند کی، کوئی نہیں ہے سوائے معبود برحق کے۔

یہ بازگشت سن کر لشکر اسلام کے سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی شمشیر بے نیام اپنی نیام میں واپس چلی گئی، اور نہ جانے کتنی راتوں کے کرب میں جاگنے والی حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھوں کو قرار آ گیا جو صرف اسی خاطر ملنے والی فتح کی صداؤں کی منتظر تھیں کیونکہ پرائی زمین میں دین مبین کے پیروکار اپنے سے بڑے لشکر جرار کا سامنا کرنے گئے ہوئے تھے تاکہ اللہ تبارک و تعالی کے دین کی حقانیت کو روز روشن کی طرح بیان کیا جا سکے۔

یہ جنگ قادسیہ کے مناظر تھے جن کی ہولناکی سے ایران کا شہنشاہ یزد گرد اپنی ہی سر زمین پر زخمی بھیڑیے کی طرح پناہ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا، ایرانی سپاہ پر زمین تنگ ہو کر رہ گئی تھی اور مجوسیت کی آہ و بکا فلک شگاف نعروں کی طرح بلند ہو رہی تھی، اہل ایمان کی ترک و تاز جاری رہی یہاں تک کہ مجاہدین اسلام کے گھوڑوں نے مدائن، خوزستان، اہواز، نہاوند، اصفہان، ہمدان، رے، کرمان، سیستان اور خراسان کو روند ڈالا، شہنشاہ یزد گرد فرار ہو کر ترکستان چلا گیا، مسلم سالار نے جب ایران کا سارا خزانہ مال غنیمت کے طور پر امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں ارسال کیا تو یہ نصرت و کامیابی اور زر و جواہر کے انبار دیکھ کر حضرت عمرؓ کی انکھیں بھر آئیں، بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہو کر سجدہ شکر بجا لائے پھر مسجد نبوی میں مسلمانوں کے انبوہ کثیر سے مخاطب ہو کر فرمایا: معبود حقیقی کے نام لیواؤں کو خوشخبری ہو کہ آتش پرستوں کی سلطنت برباد ہو گئی، اب ان کے ملک کی زمین کا ایک ٹکڑا بھی ان کے قبضے میں باقی نہیں رہا، خوب جان لو کہ اب آگ کے پجاری اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے والوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور یہ بھی سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زمین، ان کے ملک اور ان کی دولت کا وارث تمہیں اس لیے بنایا ہے کہ تمہاری آزمائش کی جا سکے، خبردار تم اپنی اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ نسبت نہ بدل لینا ورنہ اللہ بے نیاز ہے تمہاری جگہ کسی اور قوم کو بدل دے گا مجھے اس امت کے لئے اس کے اپنے افراد سے خوف ہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments