پاکستان کا تعلیمی نظام


دنیا میں تعلیم کی اہمیت کسی سے بھی چھپا نہیں۔ کیونکہ یہی تعلیم و علم ہے جو کہ اک انسان اصلاح کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ دراصل اصلاح سے مراد برداشت کرنے کی صلاحیت، جذبات پر قابو رکھنا، غیر ضروری کاموں سے اجتناب کرنا، انسانوں کے معاشرے میں انسان بن کر رہنا وغیرہ ہیں۔ پہلے تو پاکستان میں بدقسمتی سے لاکھوں بچے اور بچیاں تعلیمی نظام سے باہر ہے اور وہ دو فیصد لوگ جو ہائی تعلیم حاصل کرنے میں مگن ہے۔ انہیں بھی ہزاروں مسائل درپیش ہے جو کہ ان کے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک رکاوٹ اور درپیش چیلنج ہے۔

تعلیمی نظام میں سب سے بنیادی مسئلہ میرٹ کو نظر انداز کرنا ہے۔ جس سے وہ نا اہل لوگ سامنے آ جاتے ہیں جن کا تعلیم وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دوسری بڑی وجہ پاکستان کی خراب و بیمار معاشی نظام ہے جس کے باعث تمام سرکاری ادارے خسارے سے دوچار ہے۔ جہاں تک ملک میں پرائیویٹ اداروں کا تعلق ہے تو آج کل ایک بہترین کاروبار کے طور پر پاکستان میں کوئی بھی پرائیویٹ سکول، کالج یا خطا کہ یونیورسٹی کھول سکتا ہے۔ اگر تعلیمی نظام میں رہ کر تعلیم کا مشاہدہ کیا جائے تو یقیناً ایک طالب علم سے بہتر پاکستانی تعلیم کی عکاسی کوئی نہیں کر سکتا۔

پروفیشنل ازم بالکل عدم دستیاب ہے۔ اسلامیات کی استاد حیران کن طور پر انگریزی کی کلاس میں نظر آ سکتا ہے اور فزکس کی ٹیچر اسلامیات پڑھا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پروفیشنلزم کی نہ ہونے کی وجہ سے طالب علموں میں سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور انسانیت کی پرچار کی بھی عدم دستیابی اور ایک ٹوٹا پھوٹا سسٹم ملے گا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر، ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور انجینئر ہی انجینئر۔ جہاں تک فلیڈ سے انسانیت کا جو سفر ہے وہ وہی کا وہی رہ جاتا ہے۔

یہ کہنا بالکل جائز ہے کہ اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹی سطح کے چند گنے چنے قابل قدر پروفیسر صاحبان موجود ہیں جو کہ رات کو رات اور دن کو دن بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن معاشرے کے جذباتی رویے نے ان کو دبائے رکھا ہے اور خاموشی پر مجبور کر دیا ہے۔ کیونکہ وہ سانس کی کتاب اٹھا کر پڑھا سکتا ہے لیکن نظریہ ارتقاء کو پڑھاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرے گا کہ کہی سے متوقع جنتی حملہ نہ کر دے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ سامعین کو ہزار بار بتایا گیا ہے کہ تعلیم تو حاصل کرو لیکن آپ لوگوں نے رات کو رات بولنا ہے۔

اگر کسی نے رات کی جگہ شام یا سحر کا لفظ استعمال کیا تو وہ واجب القتل ہے اور ان کے لئے آپ سے مقدس قاتل کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ طالب علموں کو امتحان میں وہی لائن لکھنی ہوں گی جو اس نے استاد سے یا کتاب سے دیکھی یا سنی ہو گی۔ کیونکہ اپنے تجزیے کا مطلب امتحانی نمبرات کی کٹوتی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک طالب علم کے لئے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ بعض طلباء تو اساتذہ کی رخ کو جانچ لیتے ہیں اور پھر اس کے پسندیدہ الفاظ لکھتے ہیں۔

البتہ میں طالب علموں کے ساتھ امتحانی نمبرات کے لئے لالچ کرنے کا قائل ہوں کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے انہیں یہ لالچ دیا ہے۔ ایسے بھی لوگ موجود ہے جو کہ امتحانی گریڈ کیے پروا بغیر بھی تعلیمی اداروں پر آسمان سے اتراتے ہیں لیکن ان کی بات تو الگ ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے اندر تعلیمی نصاب پر بھی کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ نصاب میں بھی بہت زیادہ غیر ضروری اشیاء کا دخل ہو چکا ہے جن کا واحد مقصد طلباء کے ذہنوں کو محسوس سمت تک متوجہ کر کے ذہنی کشادگی اور سوچنے کی صلاحیت کے خلاف ایک سازش ہے۔

ضعیف تعلیمی نظام میں طوطے کی طرح بولنے والا طالب علم ایک نا اہل اثر و رسوخ اور با اثر لوگوں کی سفارش پر آنے والے شخص سے بیمار نصاب کی پڑھائی کرے گا تو اس معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کا کیا حال ہو گا؟ اگر زیادہ کچھ ممکن نہیں ہے تو کم سے کم سکول سے یونیورسٹی لیول تک ایک اخلاقیات کا کورس تو لازمی ہونا چاہیے تا کہ پڑھنے والے اور پڑھانے والے دنوں مستفید ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments