ناول ”کرول گھاٹی“ کا ایک جائزہ


’‘ کرول گھاٹی ”غافر شہزاد کا تازہ ناول ہے۔ غافر شہزاد ایک معروف و منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ جب سے اس ناول کی بابت سنا تھا مجھے یہ تجسس تھا کہ ایک تاریخ قریب میں رونما ہونے والے واقعہ کو جو ابھی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا اور جو میڈیا کا ہاٹ ٹاپک بنا رہا، ایک عرصے تک، مصنف نے اس کو کس طرح تخلیقی قالب میں ڈھالا ہو گا اور ان کے پاس یہ گنجائش کہاں سے میسر آئی ہوگی کہ ایک صحافیانہ رپورٹ کو تخلیقی سطح پہ ایک ناول کے قالب میں ڈھال دیں تو سب سے پہلے تو میں مصنف کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ وہ اپنی کاوش میں کامیاب رہے۔

کرول گھاٹی لاہور کے نواح میں وہ مقام ہے جہاں رات گئے ایک خاتون کی اس کے بچوں کے سامنے آبروریزی کی گئی جب وہ ایک تقریب کے بعد اپنے گھر واپس جا رہی تھی۔ انہوں نے اس حادثے کو عمدہ طریقے سے اس ناول کی صورت بیان کیا ہے کہ حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود آپ بوریت کا شکار نہیں ہوتے اور خود کو مائل با مطالعہ پاتے ہیں۔ ناول کا سب سے تخلیقی و توانا پہلو منٹو کا کردار ہے جو بطور مبصر عصر حاضر کے ایک پروگرام میں شریک ہے۔

یہاں غافر شہزاد کا ہنر نکھر کر سامنے آیا ہے کہ منٹو کے قالب میں اتر کر کیسے انہوں نے منٹو کی زبان سے وہ کچھ کہلوا دیا جو منٹو زندہ ہوتے تو شاید ضرور کہتے۔ اس گفتگو سے ان کے مطالعے کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے گو کہ کئی جگہ آپ منٹو کی اس رائے سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ مصنف نے چابکدستی سے اپنی زبان کو منٹو کی آواز دے دی ہے۔

منٹو کی فلسفیانہ گفتگو سوچ کے کئی در آپ پہ وا کرتی ہے جیسے یہ سطور ملاحظہ کیجیے :

’‘ سڑک کے کنارے ہونے والی واردات میں کرول گھاٹی کو ایک نئے مرکز کے طور پہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ میرے افسانوں کے کرداروں کی طرح شہر کے حاشیے میں واقع ہے، کبھی مرکز نہیں بن پائے گا، شہر کے مرکز کو تو سیف سٹی بنا دیا گیا ہے، بڑی سڑکوں پہ کیمرے نصب ہیں تاکہ مرکز کی حفاظت کی جا سکے، مضافات میں لوٹ مار ہوتی ہے تو ہو مرکز کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور دیکھ لینا ایسا ہی کچھ اس واقعے کا انجام ہو گا ”۔

منٹو بطور مبصر اتنا طاقتور روپ اختیار کر لیتا ہے کہ آپ اسے ناول کا ہیرو بھی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ مصنف اور اس کی رائے میں تضاد بھی ناول کا خوبصورت پہلو ہے۔ بطور مبصر منٹو اس سانحے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے جبکہ مصنف کے نزدیک یہ سانحہ اس قدر اہم ہے کہ ایک ناول تخلیق پا سکتا ہے۔

میڈیا کے استحصالی اور منفی رویے پہ مصنف نے بہت کھل کر بات کی ہے لیکن کچھ جگہ یہ رویہ اس قدر سخت ہوجاتا ہے کہ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا مصنف یہاں میڈیا کے راست کردار کی جانب جانبدارانہ رویہ اپنا رہا ہے؟ یہ سطور ملاحظہ کیجیے :

’‘ سرکاری ملازمین کے تعاقب میں یہ واچ ڈاگ مسلسل پھرتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ انہیں موقع ملے اور وہ ان کی لاپرواہی کو اچھال سکیں، انہیں احتساب کی یہ ذمہ داری کس نے دی ہے؟ کس قانون کے تحت انہیں یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ سرکاری اداروں کے ملازمین کی جواب طلبی کرسکیں، ان کا کام تو دراصل ہونے والے واقعے کو اپنے تمام تر شواہد کے ساتھ عوام تک پہنچانے تک محدود ہونا چاہیے ”۔

تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا میڈیا کو محدود اور روایتی کردار اپنانے کو کہا جا رہا ہے اب جبکہ ویڈیو کلپس، خبر و شہادت کے غیر روایتی ہتھیاروں سے میڈیا لیس ہے تو اس کا کردار بھی وسیع ہو گیا ہے اور بدعنوانی و کرپشن کے اس دور میں میڈیا کا خوف ایک موثر خوف ہے جبکہ مصنف اس کی خود تائید کرتا ہے ’‘ لاہور شہر کے لیے سیف ای اینڈ سمارٹ سٹی کا بنیادی تصور مشل فوکو کی فلسفیانہ تھیوری سے نکلا ہے کہ اگر مجرم کو یہ احساس ہو کہ اس کی سرگرمیاں کہیں، کسی جگہ پہ دیکھی جا رہی ہیں تو وہ جرم سے باز آ جاتا ہے ”۔

ناول کا سنسنی خیز موڑ وہ ہے جہاں مصنف انکشاف کرتا ہے کہ خاتون حادثے سے قبل ملزم شوکت ملہی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کر چکی تھی اور جائے وقوعہ پہ اصل مجرم دھند میں رہے اور شوکت ملہی اپنے پچھلے گناہوں کی پاداش میں گرفت میں آ گیا، یہ وہ موڑ ہے جو کم ازکم اس وقوعے کے بارے میرے علم میں نہیں تھا۔ یہ مصنف کی تحقیق ہے یا تخیل یہ سوال اٹھتا ضرور ہے یہاں اور بھی بہت سے سوال قائم ہوتے ہیں کہ شوکت ملہی سے اس کا رابطہ کیسے ہوا؟ وہ شادی کے فنکشن کے بعد اس کے ساتھ گاڑی میں ملی تو کیا اسی حالت میں سفر کے لیے تیار ہو گئی جو شوکت ملہی کے ڈی این اے کی صورت اس کے وجود میں ثبوت چھوڑ گیا مگر یہاں مکمل دھند ہے۔

خاتون جو حاملہ ہو چکی ہے اور فیصلے کے موڑ پہ کھڑی ہے اور مصنف اس سوال کے ساتھ ناول اختتام کرتا ہے :

’‘ مورخ قلم توڑ بیٹھا ہے، اس کے سامنے شواہد بکھرے پڑے ہیں مگر اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون سی سچائی حتمی ہے جسے سامنے لانے کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پہ ہے ”۔

ایک خوبصورت تحریر پہ غافر شہزاد صاحب کو مبارک باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments