فزکس کے شعبہ جات


اگرچہ فزکس کا تعلق مادے اور توانائی اور ان کے باہمی تعاملات سے ہے لیکن دراصل اس کا فلسفہ بنیادی طور پر مادے کے قوانین دریافت کرنا ہے۔ کسی بھی شعبہ علم کے مانند فزکس کی ایک تاریخ بھی ہے اور اس کا ایک خاص طریقہ کار بھی ہے۔ اس طریقے کار میں منطقی اصولوں کی مدد سے تجربات اور مشاہدات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان تجربات کی روشنی میں نئے منطقی اصول اور ان کے نتائج دریافت بھی کیے جاتے ہیں۔

اس وقت فزکس کی دنیا میں کام کرنے والے سائنسدان بنیادی طور پر تین اقسام میں منقسم ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہیں وہ نظری اصول (Theory) قائم کرتے ہیں اور ان اصولوں کی روشنی میں کسی مظہر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر انحصار ریاضیاتی اصولوں خاص طور پر الجبرا، جیومیٹری اور کیلکولس وغیرہ پر ہوتا ہے۔ یہ لوگ مادے میں ریاضیاتی اصولوں کی منطقی شکل دریافت کرتے ہیں۔ جیسے کہ نیوٹن نے چاند اور زمین کی گردش سمیت سیب گرنے کے مظاہر میں کیلکولس اور جیومیٹری کے اصولوں سے گریوٹی کا منطقہ دریافت کیا تھا۔ یا جیسے آئن سٹائن نے زمان و مکاں کی اضافیت کے لئے ریمان کے علم الہندسہ کی بنیاد پر عمومی اضافیت کا منطقہ دریافت کیا تھا۔ ایسا ہی کام ڈاکٹر عبدالسلام نے کمزور نیوکلیائی قوت اور برقناطیسیت کی یکجائی کے دوران بھی کیا۔

گزشتہ کچھ دہائیوں سے اس میدان میں ریاضی کی جانب سے گروپ تھیوری، ٹوپولوجی اور الجبرائی جیومیٹری وغیرہ نے مادے کی مختلف حالتوں کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ سٹرنگ تھیوری سے لے کر کوانٹم کمپیوٹر اور سپرکنڈکٹر جیسے مظاہر میں ایسے نظری سائنسدان گہرے ریاضیاتی اصولوں کا اطلاق کرنے میں مگن ہیں۔ کچھ بڑے مسائل جن پر یہ لوگ کام کر رہے ہیں ان میں اعلی درجہ حرارت پر سپرکنڈٹرز، کوانٹم کمپیوٹرز، کوانٹم گریوٹی، پلازما فیوژن، دیرپا توانائی پیدا کرنے والے میٹیریل کے علاوہ بنیادی کائناتی اصول جیسے کوانٹم گریوٹی، ایمرجنٹ تھیوری، مابعد سٹینڈرد ماڈل ذرات، آغاز کائنات کے نظریات اور کوانٹم فزکس کی تشریح وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری قسم کے حضرات وہ ہیں جو اس قدر گہرائی میں اترنے کے بجائے سطح کے قریب ہونے والے مظاہر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں بنیادی اصولوں اور منطق کی دریافت کے بجائے پہلے سے معلوم شدہ اصولوں کی روشنی میں ایسے تکنیکی مسائل کو سمجھنا ہے جنہیں شاید اب سے پہلے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس شعبہ کے لوگ زیادہ تر کیمسٹری اور بائیولوجی سمیت نیورو سائنس اور نفسیات وغیرہ میں بھی کام کر سکتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ جب مادے کے ذرات کی تعداد کسی خاص حد سے تجاوز کرنے لگے تو پھر کوانٹم دنیا سے کلاسیکل یا نیم کلاسیکل دنیا کے قوانین اپنا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جیسے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے تعامل سے پانی کا بننا یا پھر لوہے سے سٹیل بننے کا عمل اور یا پھر بیکٹیریا کا کردار اور جرثوموں کی جانداروں میں حرکت وغیرہ۔

اس شعبے کے لوگوں کا بھی اپنا ایک خاص طریقہ کار ہے۔ یہ لوگ نظری سائنس کے اصولوں کو کام میں لانے کے لئے کمپیوٹر اور اس سے منسلک پروگرامنگ وغیرہ کے آلہ جات کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر فینامینالوجی کے ماہر (Phenomenologists) یا تجزیہ کار (Analysts) کہلاتے ہیں۔ ان کام ایک طرح سے دوہرا ہوتا ہے۔ ایک طرف انہیں نت نئے نظریات سے وابستہ رہنا پڑتا ہے تو دوسری طرف یہ تجربات یا مشاہدات میں براہ راست عمل دخل بھی کرتے ہیں۔

جیسے کہ کسی بہت مہنگے اور پیچیدہ تجربے کو کرنے سے پہلے یہ اسے کمپیوٹر کی زبان میں نقل کرتے ہیں اور اس کا ایک ڈیجیٹل اوتار بناتے ہیں جس سے انہیں ماقبل تجربہ ہی بہت سے نادیدہ مسائل اور پیچیدگیوں سے آشنائی ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ایک دوائی کو انسانی جسم یا پودے یا کسی اور جاندار میں داخل کرنے سے مختلف خلیوں میں کیا ردعمل ہو سکتا ہے تو یہ لوگ یہ سارا عمل پہلے ہی کمپیوٹر پر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ کسی نظریے کے ممکنہ نتائج اور پیش گوئیوں کو بھی بنا کسی گہرے ریاضیاتی مجاہدے کے بنا پرکھ سکتے ہیں اور کم ازکم اتنا بتا سکتے ہیں کہ اس نظریے کے اطلاقات کیا ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ان کی تعداد نظری سائنسدانوں سے کہیں زیادہ ہے۔

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے بغیر شاید فزکس ایک فلسفہ تو رہے لیکن ”سائنس“ نہ بن سکے اور وہ ہیں ماہرین تجربات (Experimentalists) ۔ ان لوگوں کا کام اور ذمہ داری بھی نظری سائنسدانوں کی طرح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور شاید یہ ہی وہ مرحلہ جسے عوام کی اکثریت ”سائنس“ سمجھتی ہے۔ کیونکہ عوام کے سامنے روزمرہ زندگی کے مسائل اور سہولیات زندگی کی مد میں سائنس کے کرشمے ہی سامنے نظر آتے ہیں۔ اور کاروباری حضرات کی بھی سب سے زیادہ نظر اسی پر رہتی ہے یعنی مارکیٹ کی پسندیدہ ترین سائنس یہی ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو سنا ہو گا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی بڑا سائنسدان ہے تو اس نے ”کیا بنایا ہے“ ۔ یہ ایک فطری سوال ہے لیکن اکثر یہ وہم بھی پیدا کر دیتا ہے کہ شاید سائنس یہی ہوتی ہے اور باقی سب لوگ اہمیت نہیں رکھتے۔

بہرحال پہلے وقتوں میں چونکہ نظریات بھی اتنے گہرے نہیں تھے اور انسانی سماج کی ضروریات بھی اس قدر وسیع اور گلوبل نہیں تھیں اس لئے تجربات زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بہت سے قصے مل جاتے ہیں جہاں ایک یا دو لوگوں نے کسی بہت بڑی دریافت کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ہو۔ جیسے ارشمیدس نے اچھال کی قوت دریافت کر لی، ابن الہیثم نے لینز ایجاد کر لئے، ابن سینا اور رازی نے طب کے آلات بنا لئے یا پھر میری کیوری نے مصنوعی تابکاری دریافت کی، مائیکل فیراڈے نے برقناطیسیت اور ٹیسلا نے اے سی کرنٹ دریافت کر لیا اور ایڈیسن نے ایک ہزار سے زائد دریافتیں اپنے نام کروا لیں وغیرہ۔ ان دریافتوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ تجربات، کسی بھی سائنسی نظریے کے لئے حتمی مہر کا کام کرتے ہیں جن کے بنا کوئی بات بھی سائنس نہیں کہلا سکتی۔ لیکن ایک احتیاط بہرحال لازم ہے۔

یہ سچ ہے کہ تجربات ہی سائنس کی کسوٹی ہیں لیکن بسا اوقات انسان تجربات میں بھی بھول چوک کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ مرے گل مین کی پیش گوئی بھی تھی۔ تجربات میں اس ذرے کا نا ملنا جس کی پیش گوئی مرے گل مین وغیرہ کر رہے تھے، دراصل تجربے کرنے والے ہی کی بھول نکلی۔ ایسے ہی بہت سے تجربات میں چونکہ زمانے کے حدود و قیود کا بھی عمل دخل ہے اس لئے بہت سے نظریات ایک وقت تک یونہی پڑے رہتے ہیں تا حال کہ ان پر تجربہ ہو جائے۔ اس کی مثال حال ہی میں ہگز ذرے کی دریافت ہے یا پھر آئن سٹائن کی پیش کردہ ثقلی لہروں کی دریافت ہے۔ جنہیں ایک صدی انتظار کرنے کے بعد ثابت کیا جا سکا۔

اس سب کے باوجود اس وقت دنیا بھر میں کچھ ایسے تجربات بھی ہو رہے ہیں جن میں پوری کرہ ارض کے مختلف خطے یا ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔ جنیوا میں سرن کی تجربہ گاہ ہو یا جیمز ویب دوربین کے عجائب کا انتظار ہو، ایسے بہت سے تجربات میں معلومات خلائی سٹیشن سے لے کر قطب شمالی تک یک آن ساعت میں مسلسل سفر کرتی رہتی ہے اور یوں پوری دنیا مل کر ان بڑے پیمانے کے تجربات میں دن رات مگن ہے۔ توانائی کا بحران، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ، بائیولوجیکل اسلحہ جات، انسانی اعضاء کی پیوند کاری، وائرس کی شناخت اور ویکسین کا عمل، جینیاتی انجینئرنگ اور مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹر، بہتر کھاد اور جدید زرعی آلات وغیرہ ہر شعبے میں تینوں قسم کے سائنسدان مل کر پوری قوت سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن موجودہ سرمایہ پرست سامراجی نظام جس نے انسانیت کے خاتمے کے تمام منصوبے اور آلات بھی تیار کر رکھے ہیں، اس کی موجودگی میں کیا انسان اپنی معراج کو پہنچ پائے گا؟ آنے والا وقت ہی اس کی گواہی دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).