ہم سوچتے کیوں نہیں؟


ہم جس فیلڈ میں پڑھتے ہیں، اس کی وجہ سے ہمارا تعلق معاشرے کے تقریباً ہر ایک فرد سے بنا رہتا ہے۔ ایک ایسی فیلڈ ہے، جو ہمیں کسی بھی وقت کوئی بھی بات کسی کے ساتھ کرنے کی سعادت نصیب کرتی ہے۔

ہم یونیورسٹی اور اساتذہ سے نکل کر بھی کوئی بات کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارا واسطہ سوشل سائنسز کے ساتھ ساتھ پھر کمیونیکیشن سے ہے۔ جہاں باقی شعبہ جات کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو ہم کو بات کرنے کا زیادہ حق حاصل ہے۔

ہماری اکثر اپنے اساتذہ کے ساتھ مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ خواہ وہ مذہب کے حوالے سے ہو، سیاست کے حوالے سے ہو، سائنس ہو یا دنیا کے مختلف کلچر بابت بات کرنی ہو۔

ہمارے لئے ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات ہمارے اساتذہ ایسے موضوعات چھیڑ دیتے ہیں۔ جس موضوع میں آگے جا کر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

ایک دن ہم اپنے ایک محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے استاد کے ساتھ سوچ پر گفتگو کر رہے تھے۔ کہ انسان کی زندگی میں سوچ کا کتنا کردار ہے؟ اور سوچنے کے ایسے کیا فوائد ہیں جو انسانی زندگی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں؟

سر ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس دنیا کی تخلیق بھی ایک سوچ کے بنا پر ہوئی ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے آپ کو سوچ درکار ہوتی ہے۔ تو اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ سوچ کتنی طاقتور شے ہے۔

سوچ کو اگر آپ حصوں میں تقسیم کرنا چاہیں تو آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں

ایک وہ سوچ ہوتی ہے جو آپ کسی کام یا کرتب سے پہلے کرتے ہیں کہ اس کام کی کیا کیا انجام مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیا کیا نقصانات نکل سکتے ہیں۔ اس سوچ میں ہمارا مقصد نفع یا نقصان ہوتا ہے۔ جو ہم پاکستانیوں میں پایا جاتا ہے۔

دوسری سوچ کا تعلق نفع یا نقصان سے نہیں ہوتا، اس سوچ کا محض جاننے سے تعلق ہوتا ہے۔ جس میں ہم صرف چیزوں کے حوالے سے سوچتے ہیں کہ یہ چیز کیوں بنی، کیسی بنی، اور کس لئے بنائی گئی۔

مثال کے طور پر اس دنیا کی تخلیق کیوں کی گئی۔ سائنس روز بروز آگے بڑھنے کی کوشش میں کیوں ہے۔ انسان کیوں بنایا گیا؟ انسان اگر نہ بنایا جاتا تو کیا ہو جاتا وغیرہ وغیرہ

یہ سوچ نفع و نقصان کے سوچ سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ اس سوچ کی ہمارے پاکستان میں بڑا فقدان ہے۔

اگر ہم اس دوسرے سوچ کے اوپر کام کرنا شروع کریں، تو ہم زندگی کی حقیقت کو ضرور پہنچ پائیں گے۔ یہ جو ہم ساٹھ، ستر سال اس دنیا میں لے آتے ہیں، سوچ کے بنا پر دنیا کا جو مقصد ہے ضرور پورا ہو جائے گا۔

ہم پاکستانی غم اور خوشی کے موقع پر سوچتے ہیں کہ موجودہ غم سے کیسے نکلا جائے یا خوشی کے ساتھ کیسے نمٹا جائے،

ہم ساٹھ، ستر سال تو اس دنیا میں گزار دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہو جاتا، کہ یہ دنیا گزار تو دی، اچھی بری کا تو بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن کیوں گزار دی، اگر ایسے گزار دیتا تو کیا ہو جاتا؟ اگر ویسے گزار دیتا تو کیا ہو جاتا؟

یہ تو چھوڑیں، ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہے۔ کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں یہ تک پتہ نہیں ہے کہ ہم اس دنیا میں آئے تو ہیں۔ لیکن ہمیں کرنا کیا ہے اور کیوں آئے ہیں۔

ہم ساٹھ، ستر سال گزار دیتے ہیں لیکن زندگی کا مقصد تک طے نہیں کر پاتے۔
ہماری زندگی نکل جاتی ہے لیکن تا مرگ ہمارا زندگی کا مقصد طے نہیں ہو پاتا،
ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں کے حوالے سے سوچیں، اور زندگی کا ایک مقصد طے کریں

اس سے یہ ہو گا کہ ہماری جتنی بھی زندگی ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ اس کو ایک مثبت طریقے سے گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز ہمارے پاس موجود ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments