روداد سفر حصہ 11


جس ہوٹل میں ہماری رہائش تھی، ہمارا کیا سارے پاکستانیوں کا وہی پسندیدہ ہوٹل تھا، وہ ایسا ہی پرانا سا ہوٹل تھا جیسے لاہور ریلوے اسٹیشن پر حافظ ہوٹل۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس کی دو بلڈنگز تھیں اور اوپر نیچے جانے کے لیے پرانی سی لفٹیں لگی ہوئی تھیں جو اوپر نیچے جاتے ہوئے لے میں جھٹکے بھی دیتی اور کچھ میوزک بھی سنانے کی کوشش کرتیں۔ دونوں بلڈنگز کے درمیان ایک چھوٹا سا پارک بنا ہوا تھا۔ اسی جگہ ایک کونے میں لوہے کی چادروں سے بنائی گئی ایک مسجد تھی، اور اس کے ساتھ ایک روٹی کا تنور بھی لگا ہوا تھا جو ترک نسل کے ایغور چائنیز مسلمانوں کا تھا۔

عقبی بلڈنگ کے کمرے رہائش کے لیے مختص تھے جبکہ سامنے والی بلڈنگ میں ہنڈی اور سامان کیری کرنے والے پاکستانیوں اور افغانیوں کے دفاتر تھے۔ دوسری منزل پر پاک ریسٹورنٹ تھا۔ ہوٹل کی دونوں بلڈنگ کے ساتھ ایک بینک اور چند چھوٹی دکانیں تھیں۔ جہاں سے ضرورت کچھ چیزیں دستیاب ہوتی اور موبائل بیلنس کی سہولت موجود تھی۔ بینک والوں کا اور ان دکانداروں کا واسطہ زیادہ تر پاکستانی اور افغانیوں سے ہی پڑتا تھا۔ اس لیے وہ تقریباً سبھی کو جانتے تھے۔

اور میرے خیال میں ایوو ( yiwu ) کے اس ہوٹل کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کھانے کے لیے پاکستانی ہوٹل اور نماز کے لیے مسجد کی موجودگی۔ اس کے لیے علاوہ چائنا گورنمنٹ نے شروع شروع میں کچھ ہوٹل مخصوص کیے تھے کہ غیر ملکی صرف انہی میں رہائش رکھ سکتے تھے۔ شاید اس کے لیے کسی محکمے سے اجازت لینا ضروری تھا۔ اور انہی ہوٹلز کو یہ سہولت تھی کہ وہ غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کر کے قریبی تھانے کو تفصیلات دے سکتے تھے کہ کون آیا، کب آیا، کہاں سے آیا، کتنے دن رہا اور کب آؤٹ ہو گیا۔

اور ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ شروع شروع میں ہول سیل مارکیٹیں اسی ہوٹل کے قریب تھیں جو بعد میں نئی بڑی مارکیٹ جس کا نام فوتین مارکیٹ رکھا گیا وہاں شفٹ کر دی گئیں۔ پہلے پہل والی مارکیٹیں مختلف بلڈنگز میں تھیں۔ نئی فوتین مارکیٹ میں ایک بہت لمبی بلڈنگ کے مختلف سیکشنز بانٹ کر یہ چھوٹی مارکیٹیں شفٹ کی گئیں۔ پہلے والی مارکیٹس بہت پرانے طرز کی تھی آپ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک ایک لائن میں مختلف لوگ ٹیبل کرسی رکھ کر بیٹھے ہوتے اور ٹیبل کے اوپر ان کی مصنوعات کے سمپلز ہوتے تھے۔ جبکہ نئی میں ایک ایک شیشے کا بوتھ بنا کر ہر ایک کو دیا گیا تھا۔

ہوٹل کے ساتھ باہر کی طرف ایک دکان پر سیلز مین لڑکی تھی جس کا بوائے فرینڈ ایک افغانی تھا۔ ایک دن وہ لڑکی بیٹھی رو رہی تھی۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا بوائے فرینڈ واپس افغانستان چلا گیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ میں پریگننٹ ہوں لیکن وہ کہتا ہے کہ اسقاط حمل (abortion) کروا لو۔ کچھ عرصہ افغانستان گزارنے کے بعد جب وہ افغانی واپس آیا تو اس نے بتایا کہ افغانستان میں ہی اس کے گھر والوں نے اس کی زبردستی شادی کروا دی ہے۔ اب وہ اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ وہ لڑکی اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی۔ بعد میں اس کی ایک دوست اسے واپس اس کے اپنے شہر لے گئی۔

ایوو شہر کو ایک چھوٹا سا قصبہ ہی سمجھ لیں جس کے اردگرد چھوٹی گھریلو صنعتیں موجود تھیں، اور ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی جسے اس صنعت کا شو روم سمجھ لیں۔ ساری دنیا سے کسٹمر اس مارکیٹ میں آتے اور اپنی ضرورت کی چیز پسند کرتے اور کچھ رقم ایڈوانس دے کر سامان بک کروا لیتے۔ دکاندار اسے بتا دیتا کہ وہ کس دن مال ڈیلیور کر سکتا ہے۔

ناشتہ کر کے ہم ہوٹل سے نکلے، ٹیکسی پکڑی اور مارکیٹ کے دروازے پر اتر گئے۔ یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے فوتین مارکیٹ جس کے چار فلور ہیں اور کئی سیکشن ہیں۔ ہر سیکشن میں الگ آئٹم موجود ہوتے ہیں۔ ایک سیکشن صرف ڈیکوریشن پیس کا تھا، ایک الیکٹرانکس کا، ایسے ہی دیگر اشیاء کے سیکشن۔ ٹیکسی پر بیٹھا تو احساس ہوا کہ ڈرائیور بہت عجیب سا ہے اور اس کا رویہ اور بات کرنے کا انداز ایسا ہی ہے جیسے راولپنڈی گنج منڈی میں رکشے والوں کا۔

چھوٹا سا شہر تھا، ہوٹل سے پیدل بھی پندرہ منٹ میں مارکیٹ کے دوسرے سرے پر پہنچ جاتے ہیں۔ بہرحال مارکیٹ بہت خوبصورت اور صاف ستھری تھی۔ چھوٹے چھوٹے شیشے کے بوتھ بنے ہوئے تھے جس میں صرف سمپل ڈسپلے کیے ہوئے تھے۔ مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی شیخ صاحب نے کہا کہ یہ مارکیٹ ہے اس میں آپ اپنا کام کریں اور ہم اپنا۔ پھر واپس ہوٹل جاتے وقت دروازے کا نمبر بتا دوں گا آپ وہاں آ جائیے گا۔ میں مارکیٹ میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دو تین گھنٹے گھومتے پھرتے گزر گئے کہ شیخ صاحب کا فون آ گیا کہ انہیں میری ضرورت پڑ گئی ہے۔

کیونکہ میں چائنیز زبان سے واقف تھا۔ میں دکان کا نمبر پوچھ کر وہاں پہنچ گیا۔ ٹافیاں بسکٹ اور پستہ بادام میز پر پڑے تھے اور ایک خوبصورت لڑکی بھی بیٹھی تھی جس کے ساتھ شیخ صاحب اردو میں گفت و شنید کی کوشش کر رہے تھے۔ شیخ صاحب کی اردو میری سمجھ سے بھی باہر تھی تو اس چائنیز لڑکی کو جو اردو کی ابجد نہیں جانتی تھی، کیا سمجھ آتی۔ خیر شیخ صاحب نے جو کہا، میں نے اس لڑکی کو سمجھا دیا۔ ہماری گفتگو کے دوران بھی شیخ صاحب مزے لیتے رہے، کبھی اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ رہے ہیں، کبھی بازو۔

لیکن اس لڑکی کی نظر بس بل پر ہی تھی، جو بڑھتا ہی جا رہا تھا، ہو سکتا ہے اس بل میں ساتھ ساتھ ان مزوں کے پیسے بھی ایڈ ہوتے جا رہے ہوں۔ بل بنانے کے بعد اس نے بتایا کہ پیسے وہ مال ڈیلیور کرتے وقت گودام میں ہی وصول کرے گی۔ میں نے اس سے کہا ظاہر ہے ایسا ہی ہو گا۔ اس لڑکی نے کہا کہ شیخ صاحب سے پوچھ لو۔ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ نہیں، پیسے ہوٹل کے کمرے میں دوں گا۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی، شاید یہاں ادھار بھی چلتا ہو۔

بہرحال پہلا دن مارکیٹ میں گزرا۔ شام پانچ بجے مارکیٹ بند ہو جاتی ہے اور لوگ نکل کر گھروں کی طرف۔ اس وقت آپ پیدل ہی جائیں تو اپنی منزل پر جلدی پہنچ جاتے ہیں بجائے ٹیکسی یا بس کے۔ اس وقت روڈ کی حالت رش کی وجہ سے قابل دید ہوتی ہے۔ شام کو کھانا کھایا، شیخ صاحب کو ساتھ لے کر نکلے اور ایک نائٹ مارکیٹ پہنچ گئے۔ یہ مارکیٹ ایک ایسی روڈ پر لگتی تھی جسے شام کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ لوگ سائیکل رکشہ میں اپنی پوری دکان اٹھا کر لاتے ہیں اور اپنے نمبر جو روڈ پر لگا ہوتا ہے دکان لگا دیتے ہیں۔

خریداروں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو دوسرے شہروں سے مزدوری کے لیے یہاں آئے ہوتے ہیں۔ غیر ملکیوں میں زیادہ تعداد پاکستانی، افغانی، اور عرب ممالک کے لوگوں کی ہوتی ہے جو واپسی پر اپنے گھروں کے لیے مختلف چیزیں خریدتے ہیں۔ وہاں بہت سے غیر ملکی ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض ٹھرک جھاڑنے ہی آتے ہیں۔ بہرحال یہ جگہ بھی کاروباری لحاظ سے بہت بہترین ہے کہ دن کو کہیں اور کام اور شام کو یہاں کچھ کاروبار کر لیا اور روزی روٹی کما لی۔

مارکیٹ کے کونے میں کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنی کاروں کے بونٹ اور چھتوں پر چیزیں ڈسپلے کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کچھ لڑکے لڑکیاں جو کالج سکول کے سٹوڈنٹ ہوتے ہیں، زمین پر کپڑا بچھا کر کچھ کھلونے وغیرہ بھی بیچتے ہیں۔ میرا اس شہر میں ٹریڈنگ کمپنی شروع کرنے کا ارادہ تھا۔ اس کے لیے ایک مکان کرائے پر لیا اور ایک ایجنٹ مسٹر جان کے پاس پہنچ گئے جو خود کسی اور علاقے سے ہیں اور یہاں ایوو میں کمپنی رجسٹر کا کام کرتے ہیں۔

ان کا واسطہ بھی بہت زیادہ پاکستان، افغانیوں سے پڑتا تھا اور بقول ان کے کسی دور میں پاکستان بھی رہ چکے تھے۔ کمپنی رجسٹریشن کے لیے اپنے پاکستانی ڈاکومنٹس دیے جو تیسرے دن انہوں نے واپس کر دیے کہ یہ ریجیکٹ ہو گئے ہیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ جواب دیا کہ ان کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ اس کا حل ان کے پاس موجود ہے۔ میں نے کہا وہ کیا، انہوں نے کسی اور کے ڈاکومنٹس اٹھائے اور اس میں تبدیلی کر کے میرے نام سے جمع کروا دیے۔

میں نے پوچھا یہ کیا کر دیا اس نے بتایا کہ وہ قبول ہو گئے ہیں۔ باقی ہر سال میں موجود ہوں اسے ری نیو کروا لوں گا۔ یعنی پکا اپنا گاہک بنا لیا۔ یہ تبدیل شدہ ڈاکومنٹس میرے پاس بھی نہیں تھے کہ کسی اور ذریعے سے اگلے سال رینیو کروا سکوں۔ ویسے شروع شروع میں یہی کچھ ہوتا تھا اور حکومت بھی زیادہ توجہ نہیں دیتی تھی۔ یہ بھی بس ہماری طرح جگاڑو ہی ہیں۔ یعنی مشکل میں حل بھی نکال لیا اور گاہک بھی بنا لیا۔ بہرحال پراسیس کے بعد رجسٹریشن مکمل ہو گئی۔ دوسرے دن مسٹر جان نے ایک آفس کی لڑکی ہسپتال ساتھ بھیجی جہاں میڈیکل چیک اپ ہوا سارے ڈاکومنٹس امیگریشن آفس میں جمع کروائے اور امیگریشن نے دفتر چیک کر کرے ویزہ ایشو کر دیا۔

 کبھی کبھار تنہائی میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم وہ خاص امت تھے جنہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا اور لوگوں تک دین پہنچانے کی ذمہ داری لگائی گئی۔ لیکن یہاں آ کر ہم لوگ اپنا اور اپنے مذہب کا کیا امیج پیش کر رہے ہیں۔ ہم کیا جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے ایک موقع دیا کہ ہم اپنے مذہب کا تعارف غیر مسلوں کے سامنے پیش کرسکیں، کیا ہم نے ایسا کیا؟ میں صرف پاکستانی اور افغانی مسلمانوں کی بات نہیں کر رہا یہاں تو دنیا کے ہر ملک کے مسلمان موجود ہیں۔

یہاں قدم  قدم پر بکھری عجیب و غریب کہانیاں ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنی الگ کہانی ہے۔ کیونکہ یہاں لوگ عرصہ دراز سے رہ بھی رہے تھے اور محنت مزدوری کے بجائے کاروبار کر رہے ہیں۔ یہی پیسہ ہے جو ایک سے ایک کہانی تخلیق کر رہا تھا۔ ان تمام تر کہانیوں کے ساتھ سب کی زبان پر تھا کہ یہ مسلمان ہیں یہ سور نہیں کھاتے یہ اسے حرام کہتے ہیں۔ کیا یہ سور بھی اتنا ہی حرام ہے جتنا زنا، دھوکہ، فراڈ، جوا، حق تلفی، ناحق زیادتی۔ یا پھر یہ مسلمانوں کا ایک انتخابی نشان ہی ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں اور سور نہیں کھاتے۔ کیا ہمارا دین بس اتنا ہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments