سیاسی قیادت عمران خان سے سبق سیکھے


تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا یہی المیہ ہے کہ ان ممالک میں طاقت کا سرچشمہ طاقت کو سیاسی قیادت کے ساتھ جزوی طور پر شیئر کرتا ہے مگر طاقت کو کلی طور پر منتقل نہیں کرتا اور المیہ یہ جزوی طاقت بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات سیاسی قیادت اپنے جامے میں پوری نہیں آتی کبھی اس کا قد بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے تو کبھی اس کے خیالات دنیا پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ حقیقت میں ہوتا کچھ نہیں ہے بس محض خام خیالی ہوتی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہاتھ باندھے اعلیٰ بیوروکریسی، مودب دربان اور گھیرے میں لیے ہوئے مصاحبین کے جم غفیر کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اچھے بھلے انسان کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ آنکھیں اقتدار کے جاہ و جلال سے سرخ ہونے لگتی ہیں۔

احکامات شاہی کی جب چٹکی بجاتے ہی تکمیل ہونے لگتی ہے تو رفتہ رفتہ عادت ہی پڑ جاتی ہے کہ منہ سے نکلی ہر بات پوری ہو اور پلک جھپکتے احکامات کی تکمیل ہو۔ مصاحبین اور حواریوں کا رش ہی اتنا ہوتا ہے کہ کچھ خبر نہیں ہوتی کہ باہر کی دنیا میں کیا چل رہا ہے۔ اس کی تصدیق شاہ ایران نے انقلاب کے بعد کی تھی اور کہا تھا کہ مجھے سب اچھا کی رپورٹ ملتی رہی اگر مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ میری عوام پریشان ہے تو میں حالات کو سنبھال لیتا مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور انقلاب آ چکا تھا۔ شاہ کو اپنے تخت سے دستبردار ہو کر دوسرے ملک میں پناہ لینی پڑٰی۔

مندرجہ بالا کہانی کسی ایک سیاسی فرد یا خانوادے کی نہیں ہے یہ تیسری دنیا کے ہر ملک کی سیاسی کہانی ہے۔ اس سب کے باوجود کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کوئی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عہد ایوبی سے پہلے تک ہر حاکم پسند نا پسند کی بنیاد پر تبدیل ہوتا رہا اور ایسے ہوتا رہا کہ ہندوستانی وزیراعظم کو کہنا پڑ گیا کہ میں اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی ہمارے ہاں پرائم منسٹر بدل جاتے ہیں۔ اس کے بعد 90 کی دہائی بھی ایسی رہی کہ کسی حکومت نے مدت پوری نا کی۔ ایک مدت بعد جا کر میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے۔ مگر اس دوران ایک نئی قیادت عمران خان کی صورت میں سامنے آئی

ایک مشہور و معروف کھلاڑٰی جو کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ تعلیم یافتہ بھی تھا اور بلا کی خوداعتمادی بھی تھی مگر سیاسی اور فکری طور پر اوسط درجے کا سیاست دان تھا۔ نظر کرم ہوئی اور ایک نئے تجربے کے لیے کپتان کو چن لیا گیا۔ اس غبارے میں آہستہ آہستہ ہوا بھری جانے لگی۔ قد بڑا کیا جانے لگا ہانک ہانک کر عوام کا رش کیا گیا۔ ایک منظم طریقے سے ذہن سازی کی گئی کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو کپتان کی حکمرانی ضروری ہے۔ اس بات کا اتنی شدت سے پرچار کیا گیا کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مدمقابل ہر سیاسی قیادت کی کردار کشی کی گئی۔

سیاسی میدان کو صاف کر دیا گیا۔ پہلی بار میچ فکسنگ کا برملا اور دیدہ دلیری سے اقرار کیا گیا۔ کپتان بھی اس میچ فکسنگ پر راضی تھا خوش تھا مطمئن تھا اور اسی لیے خاموش تھا۔ اقتدار میں آنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں اور جاری شدہ پارٹی کے ٹکٹ واپس کرائے گئے۔ ہر سیاسی جماعت میں نقب لگائی گئی پھر بھی نمبرز پورے نہیں ہوئے تو آزاد اراکین کو شامل کرایا گیا اور بالآخر وہ وقت آ گیا جب کپتان نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ ہر دن امید سے بھرپور ہر رات نئے خواب لیے ہوئے تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہی گمان کہ اب قوم کی حالت بدلی کہ اب بدلی۔

اچھے دن کیا آنے تھے پہلے سے بھی حالات مزید دگرگوں ہو گئے۔ دو وقت کے کھانے کے لالے پڑ گئے تو سوچنا شروع کیا گیا کہ شاید یہ تجربہ غلط ہو گیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بلندیوں کو چھوتا ہوا مقبولیت کا گراف آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا پہلے عوام کی دہائیاں شروع ہوئیں پھر پارٹٰی سے آوازیں آنے لگیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ منتخب اراکین ساتھ چھوڑ گئے۔ مگر مہاتما بنا کر کپتان کو جس بلندی پر پہنچایا گیا وہاں سے اس کی واپسی باوجود کوشش کے ممکن نا ہو سکی۔

عدم اعتماد جب بھی کامیاب ہو اس وقت حالت یہ ہے کہ کپتان کی اپنی ٹٰیم کے اراکین کپتان کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کپتان ان پر الزام بھی عائد نہیں کر سکتا کہ یہ بھان متی کا کنبہ اس کی خواہش پر جوڑا گیا تھا۔ اس لیے اب جس جس کا ضمیر جاگتا جائے گا وہ رخت سفر باندھتا جائے گا اور جانے والوں کو کون روک سکا ہے۔ واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے جس طریقے سے کپتان کی ٹیم تعمیر کی گئی تھی اسی طرح اس کے مسمار ہونے کا عمل شروع ہو چکا ہے

اس عروج و زوال کی داستان میں ہماری دیگر سیاسی قیادت کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ یہ کہ اقتدار دائمی نہیں ہوتا ایک نا ایک دن مدت اقتدار نے ختم ہونا ہوتا ہے پھر اسی عوام میں جانا ہوتا ہے جس کی مدد سے اقتدار کا در نصیب ہوتا ہے۔ اگر عوام ساتھ نا دے تو وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے جو جزوی طاقت آپ کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ لہذا آخری عہد اپنی عوام کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ساتھ کیا گیا ہر وعدہ ایفا کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اگر اس سرچشمے سے غداری کی تو پھر عروج کو زوال آتے دیر نہیں لگتی یقین نہیں آتا تو کپتان کے عہد حکمرانی کو دیکھ لیں۔

لہذا اگر اقتدار سنبھالنے جا رہے ہیں تو یاد رہے کہ ڈلیور کرنا ہو گا عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا ہو گا۔ عام آدمی کی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، غربت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، روزمرہ کی بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی لانی ہوگی اگر یہ سب کچھ کیا تو تب جاکر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments