دو خلائی پروب وائجر 1 اور وائجر 2 کے تحقیقی سفر


”ایک ہیلو اپنے جواب کے انتظار میں ہے“

جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے اس دنیا کی ہر شے اس کے لیے ایک نیا اور انوکھا جہان ہے۔ جہاں پراس کی جستجو کی تلاش کا سفر کبھی حیرت انگیز دریافتوں کی آگاہی دیتا رہا۔ وہاں یہ سوچ بھی ہمراہ رہی کہ اس جہان میں وہ اکیلا نہیں کہیں نہ کہیں زندگی کسی اور جگہ، کسی اور دنیا میں ہوگی۔ اس سوچ اور جذبے کو لے کر اس نے اپنی تحقیق کے اس سفر کا آغاز کا پہلا قدم ”چاند“ پر رکھا بلاشبہ یہ بڑی چھلانگ تھی۔ اس قدم نے مزید آگے جانے کی ہمت دی، انسان نے اپنا دوسرا قدم ”وائجز“ کو لانچ کرنے کی صورت میں خلاء میں رکھا۔ انسان اب نہ صرف مریخ پر جانے کی تیاری میں ہے بلکہ ”بلیک ہولز“ اور مختلف ”کہکشاؤں“ کے راز جاننا چاہتا ہے۔ مگر یہ سفر ”وائجز“ کے تعاون اور اشتراک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

”وائجر کیا ہے اور اس کو کیوں لانچ کیا گیا ہے“ ؟

”وائجز“ بنیادی طور پر دو ایسے ”خلائی پروب“ ( روبوٹک مشینز) ہیں جن کو ناسا نے 1977 میں فلوریڈا کے کیپ کنیاول خلائی سنٹر سے خلا میں مشتری (جو پیڑ) ، زحل (سائٹن) یورنیس، نیپچون کے بارے میں تحقیق کے لیے بھیج ’اھا۔ ہر ”127 سال“ بعد یہ چاروں سیارے ایک ایسی ”ہندسی ترتیب“ میں نظام شمسی کے مدار میں ایک قطار میں آ جاتے ہیں۔ جس سے ان کا آپس میں اور زمین سے فاصلہ کم ہو جاتا ہے اور یہ ان کی تحقیق کا سنہری موقع تھا، جس سے ناسا نے فائدہ اٹھانے کے لئے وائجر کی تخلیق کی۔ اور اس موقع سے فائدہ اٹھایا گیا۔ اور وائجر 2 کو 20 اگست 1977 کو اور وائجر 1 کو 5 ستمبر 1977 کو سولہ دن کے فرق سے ٹاٹیٹن سنیٹور شٹلز کے ذریعے خلاء میں پہنچایا گیا۔ یہ تیز ترین رفتار اور طاقت ور موثر توانائی کے ساتھ سفر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ریمورٹ آپریٹنگ سسٹم کے ذریعے کام کرتے ہیں۔

وائجر 1 نے 24 جنوری 1986 کو یورنیس اور اس کے چاند کے متعلق معلومات فراہم کرنے سے اپنے مشن کا آغاز کیا۔ یہ ایک فلائی بائی مشن تھا، یعنی سیاروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے جانا تھا۔ وائجز نے وہ امیدیں جو ان سے اس مشن میں لگائی گئیں تھیں ان سے بڑھ کر کام کیا۔ انھوں نے مشتری کے سائز اور اس کے ماحول، جغرافیائی، ماحولیاتی معلومات فراہم کی اور اس کے گرد ”گیسوں کی وہ پتلی پرت“ جو سائنسدانوں کی نظروں سے اوجھل تھی وہ بھی کھوج نکالی، اس کا چاند ”ایؤ“ بھی ڈھونڈ نکالا صرف جس پر زمین کے بعد اب تک زندہ آتش فشاں ملے ہیں نظام شمسی کے مدار میں۔

”ساٹن/زحل“ کے گرد بنے گیسوں کے حلقے کے بارے میں اور اس پر جاری تین سو سال جاری طوفان کے بارے میں آگاہ کیا۔ اور سب سے اہم اس کے سب سے بڑے چاند ”ٹاٹیٹن“ کے بارے میں وہ معلومات فراہم کی جو آج سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھیں۔ وائجر 1 کو ٹاٹیٹن کے مطالعے کے لیے ہی ڈیزائن کیا گیا تھا۔ وائجز کی بھیجی گئی معلومات کے مطابق ٹاٹیٹن زمین سے ملتا جلتا سیارہ ہے، جو زمین ہی جغرافیائی آثار مثلاً جھیلیں، برفانی تودے، پہاڑ، اور بادلوں کی موٹی پرت رکھتا ہے۔ ان دونوں خلائی جہازوں نے نہ صرف ان تمام سیاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی بلکہ خلاء میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں جو کہ ابھی تک صرف مشاہدے اور تحقیق کے صفحات پر تھیں ان کو تصدیق کی سند دے دی

” ہمارا گھر/پیل بلیو ڈاٹ“

یہ دونوں آج بھی اپنے سفر کے 43 سال بعد بھی خلاء میں 17 کلو میٹر کی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں یہ ہم سے بالترتیب ”121 اے یو اور author/shumaila۔ aslam 119 اے یو“ (آسٹرومک یونٹ) یہ خلائی سفر کی پیمائش کے پیمانے ہیں ) کے فاصلے پر ہیں۔ یہ اس وقت نظام شمسی کے مدار کو عبور کرتے ہوئے سورج کے نیچے سے سفر کرتے ہوئے انٹرسٹلیر سئپسں (دو ستاروں کے درمیان کے فاصلہ کو کہتے ہیں ) کو بھی عبور کرتے ہوئے آنے والے تین سو سال تک آؤٹ کلا وڈ (نظام شمسی کی آخری حد ) کو عبور کر جائیں گے اور پھر ہماری کہکشاں میں گردش کرتے رہیں گے۔

یاد رہے کہ انڑسٹلیر خلا میں یہ انسان کی بنائی ہوئی پہلی چیز ہے، جس نے وہاں تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ اب تک 19، 000 تصاویر کی صورت میں ڈیٹا فراہم کر چکے ہیں۔

” 32 سال پہلے جب“ وائجر 1 ”سیاروں کے مدار سے نکل کر خلاء کی دوسری اور انتہائی حد کی جانب بڑھا تو ، اس نے آخری بار اپنے کیمرے کی آنکھ کھولی ہے اور اپنے سابقہ گھر زمین پر الوداعی نظر ڈالی اور اس نظر کو ایک فوٹو گراف کی صورت میں محفوظ کر لیا۔

ایک مکمل فیملی فوٹو گراف جس میں نظام شمسی کے تمام تر سیارے موجود تھے۔ اس میں زمین بھی ہے۔ یہاں زمین کو تلاش کر پانا ناممکن ہے جو کہ ایک موہوم نقطہ کی صورت میں موجود ہے۔ اس مشہور زمانہ تصویر کو ”دی پئل بلیو ڈاٹ“ کے نام سے جاننا جاتا ہے۔ ”

اس کے بعد اس نے اپنی کیمرے کی آنکھ ہمیشہ کے لئے موند لی۔ یہ دونوں 2025 تک ہی ناسا سے رابطہ میں رہ پائیں گے۔ ان کے بیشتر آلات اب بند کر دیے گئے ہیں۔ اپنی 40 سالہ سالگرہ کے موقع پر بھی اس نے اپنا ڈیٹا شیرء کیا. ”

وائجر خلاء میں جس تحقیقی جائزے کے لئے گئے تھے وہ تو انھوں نے بخوبی پورا کیا۔ مگر ایک کام ابھی بھی نامکمل ہے۔ یہ دونوں اپنے ساتھ زمین سے انسانوں کی طرف سے خلا میں موجود ”ممکنہ مخلوق“ کے لیے ”امن اور سلامتی کا پیغام: لے کر گئے ہیں۔ یہ وہ“ واحد چیز ”ہے جو اس وقت عمیق ترین خلاء میں انسان کی نمائندگی کر رہی ہے۔ یہ پیغام ایک تانبے کی بنی ہوئی گولڈن ڈسک کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہے۔ اس ڈسک میں 55 زبانوں میں امن و سلامتی کا پیغام ہے، پیغام کی پہلی زبان“سمیری” ہے۔ اس کے علاوہ اس میں زمین پر موجود مختلف ثقافتوں کے گیت، مختلف صوتی تاثراتی آوازیں مثلاً بارش، بادلوں کی گڑگڑاہٹ، انسانوں اور جانوروں، ٹریفک، کی آوازیں شامل ہیں۔ ان ریکارڈز پر وہ تمام علامتی نشانات ثبت ہیں جو زمین پر اہم رہے ہیں مثلاً E=m 2 وغیرہ۔

یہ پیغام بچوں کی آواز میں ”ہیلو /سلام“ کی صورت میں ہے۔ اردو پیغام کے الفاظ یہ ہیں: “السلام و علیکم۔ ہم زمین کے رہنے والوں کى طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں”۔

اور ہر پانچ منٹ میں یہ پیغام مختلف زبانوں میں دہرایا جا رہا ہے۔ یہ وہ ”واحد انسانی آواز“ ہے جو 43 سال خلاء میں اپنے جواب کے انتظار میں ہے ”تحقیق اور جستجو“ کے اس سفر میں ہم ”وائجز“ کے شاندار کردار اور کارکردگی کو بھول نہیں سکتے یہ انسان کی محنت اور دوسری دنیاؤں کی تسخیر کی وہ مثالیں ہیں جو انسان نے صدیوں کی کوششوں سے پوری کی ہیں اور یہ وائجز کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ خلائی تحقیقات کی تاریخ ان کے ذکر کے بنا ادھوری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments