خوف کے سائے میں جیتی مسیحی برادری


چوڑا اور مسلی وہ سطحی الفاظ ہیں جو ہم اپنے ملک میں رہنے والی مسیحی برادری کے لئے بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد کی محفلوں میں جب ہمارے پاس کسی مسیحی بھائی کے سوالوں کا جواب نہ ہو تو ہم اسی قسم کا اخلاق سے گرا کوئی لفظ استعمال کر کے اس کا منہ بند کرا دیتے ہیں۔ وہ بیچارا شرما یا مسکرا کر خاموش ہو جاتا ہے کیونکہ بات زیادہ بڑھتے پر ہم مسلمان ایک ہو جاتے ہیں۔ پھر سچے جھوٹے الزامات لگا کر اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں رہنے والی مسیحی برادری میں کچھ چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں۔ آپ ملک کسی بھی کونے میں رہنے والے مسیحی سے بات کریں گے تو وہ مسکرا کر آپ کی بات کا جواب دے گا۔ اگر آپ مذہب پر بحث کریں گے تو وہ فوری طور پر گفتگو سے کنارا کشی اختیار کر لے گا یا آپ کی ہر بات کا صرف سر ہلا کر جواب دے گا۔ آپ سیاست یا کسی بھی موضوع پر مسیحی سے بحث کریں گے وہ بڑے تحمل سے آپ کی باتوں کا جواب دے گا۔ آپ کو غصے میں دیکھتے ہی وہ درست بھی ہوا تو خاموش ہو جائے گا۔ مسیحی دوست کام کے معاملے میں ہم سے کہیں زیادہ محنتی ہیں اور لین دین کے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔

اقلیتوں سے متعلق ہمارے رویے بھی ایک جیسے ہیں۔ ہمارے پیارے مذہب کی تعلیمات نے ہمارے رویوں پر رتی برابر بھی اثر نہیں ڈالا۔ ہم اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ انھیں القابات سے نوازتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنے اور کھانا کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے برتن کے الگ رکھتے ہیں تاکہ انھیں اپنے کم تر ہونے کا احساس ہو۔ گفتگو کے دوران یا کسی بھی معاملے میں جب ہمارے پاس دلائل نہیں ہوتے تو ہم بچنے کے لئے سطحی القابات کا استعمال کرتے ہیں۔ تب بھی بات نہ بنے تو مذہب کو بیچ میں لے آتے ہیں۔ وہ بیچارہ کفر کے فتوے سے بچنے کے لئے فوری طور پر اپنی آواز بند کر لیتا ہے اور پھر ہم سے لیا دیا رہتا ہے۔

میں کبھی کبھار گپ شپ کے لئے اپنے ایک مسیحی دوست کے دفتر چلا جاتا ہوں۔ گفتگو کے آغاز سے ہی پاکستان کو دعائیں دینا شروع کر دیتا ہے اور وطن عزیز کو درپیش مسائل پر تجاویز دیتا رہتا ہے۔ میرا دوست عمران خان کا بہت بڑا فین ہے۔ ایک دفعہ سیاست پر ہماری بحث طویل ہو گئی۔ مجھے غصہ آیا۔ مجھے آپے سے باہر ہوتا دیکھ کر وہ فوری طور پر چپ ہو گیا۔ اس کی چپ میرے لیے کسی تھپڑ سے کم نہ تھی۔ وہ اس لیے چپ نہیں ہوا تھا کہ اسے غصہ نہیں آتا یا اس کے پاس دلائل کی کمی تھی۔ وہ اس ڈر سے چپ ہوا تھا کہ بات مزید بڑھی تو کہیں میں اس کی ذات پر کوئی سطحی جملہ نہ کس دیتا یا جھوٹا کفر کا فتوٰی لگا دیتا۔ میرے لیے یہ بڑے افسوس کی بات تھی کہ میرا دوست میری غلط بات پر بھی مجھ سے بحث کرنے سے ڈرتا ہے کیونکہ میں مسلمان ہوں اور پاکستان میں رہتا ہوں۔

چند روز قبل اس سے مسیحی برادری پر ہونے والے تشدد کے حالیہ واقعات پر بات ہوئی تو کہنے لگا کہ پاکستان میں رہنے والی مسیحی برادری مسلمانوں سے ڈرتی ہے۔ اکثر واقعات میں جھوٹے الزامات لگا کر انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ واقعات سچے بھی ہیں تب بھی میں یا کوئی دوسرا شخص قانون ہاتھ میں لینے والا کون ہوتا ہے۔ جب تک ان جھتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہیں ہوگی اس وقت تک تشدد کے ان واقعات میں کمی نہیں آئے گی۔ وہ کہنے لگا کہ وہ پاکستان میں اس لیے رہ رہا ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وہ ہم مسلمانوں سے بات کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی کسی بات کا بتنگڑ ہی نہ بنا دے۔

میں اپنے مسیحی دوستوں کو سلام کا جواب دیتا ہوں تو آواز آتی ہے کہ ان کے سلام کا جواب دینا گناہ ہے۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ گندے ہوتے ہیں۔ میں اپنی سوشل میڈیا کی وال پر مسیحی بھائیوں کو کرسمس اور نئے سال کی مبارک باد دینے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ پر ہی کفر کا فتوٰی نہ لگ جائے۔ میرے حلقہ احباب میں جتنے بھی غیر مسلم ہیں سب سے میری بہت اچھی دوستی ہے۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں ان کے چہروں اور حرکات میں پائی جانے والی بے چینی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔

ہمارے جسم میں کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے اور جب تک کانٹا نکل نہ جائے ہمیں آرام نہیں آتا۔ انسانی معاشرہ زندہ چیز ہے ایک جسم کی مانند ہے۔ اس میں بسنے والے کالے گورے، مسلم غیر مسلم، امیر غریب، معذور اور بیمار اس کے جسم کے حصوں کی مانند ہیں۔ انسانی معاشرہ جب تک اپنے جسم کے تمام حصوں کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک نہیں کرے گا اس وقت تک متوازن معاشرہ نہیں کہلائے گا۔

مغرب کی ترقی کی وجہ وہاں کے لوگوں کا گورا رنگ، ٹھنڈا موسم یا وسائل نہیں ہیں۔ مغرب کی ترقی کی اصل وجہ ”جیو اور جینے دو“ کا فلسفہ ہے۔ جو ”مشرق“ سے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ انھوں نے اس فلسفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب ترقی کی۔ مغرب تک یہ فلسفہ روم سے پہنچا اور روم میں یونانیوں سے آیا۔ ہزاروں سال قبل یونان میں دنیا کے عظیم ترین فلاسفر پیدا ہوئے۔ جن کی کہی ہوئی باتوں کی مثالیں ہم آج بھی بڑے فخر سے دیتے ہیں۔ یونان میں دنیا کے عظیم ترین ذہن اسی لیے پیدا ہوئے کیونکہ وہاں ”جیو اور جینے دو“ کا فلسفہ باقی دنیا سے پہلے پہنچا۔

ہم بھارت، فلسطین اور دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا رونا تو روتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اپنے ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ اگر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو جیو اور جینے دو کے فلسفے کو اپنانا ہو گا۔ اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق دینا ہو گا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان پر جتنا حق ہمارا ہے اتنا ہی ملک میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کا بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments