پاکستان کے قیام کے 75 سال بعد ، ”روشن مستقبل“ کی نوید؟


سال رواں 2022 میں پاکستان کے قیام کو 75 سال پورے ہو رہے ہیں اور ایک صدی کے پورے ہونے سے محض پچیس سال کی دوری پر ہیں۔ کسی بھی ریاست کے لئے 75 سال کا عرصہ ایک طویل مدت ہوتی ہے جس میں وہ پھل پھول کر مکمل استحکام پا کر دنیا میں باعزت طریقے سے رہنا سہنا سیکھ جاتی ہے۔ دیگر ممالک کی متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کم و بیش پاکستان کے ساتھ آزادی حاصل کی تھی یا از سر نو زندہ ہو کر جینا شروع کیا تھا۔ چین اور جرمنی سر فہرست ہیں، یہ دونوں ممالک زمین سے ترقی کی انتہا کی بلندی تک پہنچ گئے۔

اسی طرح شمال مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک چین، شمالی، جنوبی کوریا، جاپان، برونائی، انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام وغیرہ بھی ترقی کرتے کرتے کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ ان ممالک کی معاشی، سائنسی، اقتصادی، سیاسی ترقی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور مکمل خود مختار آزاد ملک کے طور پر کرہ ارض پر موجود ہیں۔ کیا ان ریاستوں میں انسان حکمرانی، سیاست نہیں کرتے؟ دنیا جانتی ہے کہ یہ ریاستیں مذہب و نظریات سے بالا ہو کر انسانی اقدار، عوامی مفاد اور دور حاضر کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان ممالک کے شہری سیای، مذہبی تعصبات کے بغیر نہ صرف زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں کلیدی کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ملک سب کا، مذہب اپنا اپنا۔ قانون کی بالادستی کامیابی و ترقی کی کنجی ہے۔ ان ممالک کی پولیس کے نزدیک جرم بس جرم ہے، اس کا کوئی عقیدہ، مذہب نہیں ہوتا۔

اب ہم پاکستان کی طرف واپس لوٹتے ہیں جہاں سیاسی حالات اور عدم سیاسی استحکام اور سیاست میں بڑھتا ہوا عدم برداشت اور تشدد شاید اب انتہا کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ نفرت، انتقام کے شعلے اس قدر بھڑک رہے ہیں کہ آشیانہ جلنے کا گماں ہونے لگا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سندھ ہاؤس پر حملہ سے سیاست میں بھونچال اور زلزلہ کی سی کیفیت کا گماں ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ ماضی کے سانحوں، المیوں سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا جس کی لمبی فہرست ہے۔

سیاسی تاریخ پاکستان یہی بتاتی ہے کہ پاکستان ”سازشوں“ کے سائے تلے ہی سات دہائیاں گزار گیا اور ہر دہائی میں پاکستان ”نازک دور“ سے گزرتا رہا۔ پاکستان کو اگر صرف ”مسلمانوں“ کے سہارے نہ چھوڑا جاتا تو شاید آج تاریخ اور پاکستان کی حالت کچھ اور ہوتی۔ ناخواندہ مسلمانوں نے اکثریت کے زعم میں قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو اندھیروں میں ڈبو رکھا ہے۔ آزادی کے وقت سے جاری سازشوں نے آج بھی پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

قائد اعظم کی بیماری کے دوران ایمبولنس کی خرابی اور بانی پاکستانی کی المناک وفات، دستور ساز اسمبلی کی تاریخی تقریر کی گمشدگی شروعات تھیں سازشوں کی۔ اس کے بعد پہلے وزیر اعظم کو سرعام ہزاروں کے ہجوم میں قتل کر دیا گیا۔ سب سے بڑا سانحہ سقوط ڈھاکا رونما ہوا ہے، اس کے بعد تو کسی غلطی کی گنجائش نہ تھی لیکن جلد ہی مٹی ڈال دی گئی اور بھول گئے کہ کبھی مشرقی پاکستان بھی ہمارا تھا۔ آزادی کے 26 برس بعد جو پہلا آئین پاس اور نافذ ہوا تو جلد ہی دوسری ترمیم کے ذریعے مذہب کا زہریلا ٹیکہ لگا دیا گیا جس کے نتیجہ میں وقت کے ساتھ ساتھ زہر پورے آئین میں پھیلتا گیا، اس کے منفی اثرات ملکی معاشرے پر پڑے اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

یہی دوسری ترمیم اب مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ملک کے اندر انتشار، نفرت، قتل و غارت کا سبب بن رہی ہے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، ایک کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سیاسی لیڈر، دانشور قتل ہو چکے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج پاکستان کے اندر عالمی سطح کی ایک بھی شخصیت ایسی دکھائی نہیں دیتی جو عالمی سیاست کے تقاضوں کو سمجھ سکے اور پاکستان کو اندرونی طور پر مستحکم کر سکے۔

75 سال کی سیاسی، ریاستی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں دو نظریے ہر دور میں سیاسی ڈھال اور اقتدار کے طول دینے کی غرض کے طور پر اپنائے جاتے رہے ہیں، ان میں اول ذاتی، جماعت مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینا اور دوسرا مذہب کے نام پر عوامی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب کے اندھا دھند استعمال نے پاکستان کی جڑوں کو نہ صرف کھوکھلا کیا بلکہ دیمک کی طرح ایسا کھایا کہ اب پورا درخت ہی کمزوری کے باعث ہلتا دکھائی دیتا ہے۔

نو بت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستانی لوگ اندھا دھند اس ملک سے بھاگ رہے ہیں جس کا آئین اسلامی ہے اور ان ملکوں میں پناہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں جو سیکولر اور غیر اسلامی ہیں۔ مذہب کے نام پر لگائی اور بھڑکائی آگ نے قوم کو جلا کر بھسم کر دیا ہوا ہے۔ اداروں کی اندر کی طاقت ختم کردی گئی ہے۔ مذہب نما سیاست اور طرز حکمرانی کے باعث پاکستان سکڑتا اور بگڑتا جا رہا ہے، عالمی سطح پر تنہائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

اسلامی ممالک معاشی معنوں میں بھارت کے ساتھ ہیں اور مذہبی معاملات میں پاکستان کو خوش کر دیتے ہیں۔ عالمی اور مشرق وسطی میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے برعکس پاکستان میں الٹ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ خارجہ پالیسی مذہب کے دباؤ میں ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا جنونی ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلا کر قتل ہونا، چند ماہ بعد نیم پاگل مسلمان کا ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ طور پر قتل ہونا، ایسی مثالیں ہیں جن سے ہمیں ”روشن مستقبل“ کی نوید ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments