چلغوزے کا فراموش


جانے یہ لفظ کھڑی بولی (دلی کی بولی) سے آیا یا پڑی بولی (لکھنو کی بولی ) سے، لیکن قدیم اردو میں بھی اس کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔ کبھی کبھار پھل خریدتے ہوئے آپ نے دو پھل جڑے ہوئے دیکھے ہوں گے ایسے جڑواں پھل کو فراموش کہتے ہیں۔ فراموش سے جڑی ایک دلچسپ رسم ”یاد فراموش یا چناغ“ ہے۔ فریقین میں طے پاتا ہے کہ جب کسی فریق کو جڑواں پھل دیا جائے اور اس سے پہلے کہ وہ ”یاد“ کہے اگر، دینے والا فراموش کہہ دے تو وصول کنندہ کو اسی پھل کے دو سو دانے دینا ہوں گے ۔ اسے چناغ شرط بدنا کہتے ہیں۔ عام طور سے مذاق کا رشتہ رکھنے والوں کو جڑواں پھل بجھائے (بوجھنا محاورہ استعمال کیا جاتا تھا ) جاتے تھے۔ اس رسم کا ذکر قدیم اردو ادب میں بھی ملتا ہے۔ میر تقی میر نے کچھ اس طرح ترکیب باندھی تھی۔

سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سو
وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد

میر تقی میر کے ہم عصر، مصحفی کے ساتھ چشمک کے لئے مشہور، شاعر اور بے مثال مصنف، انشاءاللہ خان انشا اپنے کلام میں چناغ کا ذکر اس طرح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لو ہم میں تم میں یاد فراموش بھی سہی
پھر تازہ آج توڑ کے باندھیں چناغ شرط

ہمارے خاندان میں یہ رسم بڑے طمطراق سے سالی اور بہنوئی کے درمان کھیلی جاتی رہی ہے۔ خواہر نسبتی کسی پھل کا فراموش پکڑانے میں کامیاب ہو جاتی تو نعرہ بلند کرتی ”فراموش“ ۔ اور پھر بہنوئی کو اس پھل کے دو سو دانے دینا پڑتے جو سب اپنی اور رشتے کی بہنوں میں بانٹے جاتے۔ دولہا بھائی، سالیوں کے ہاتھ سے کوئی چیز لیتے ہوئے محتاط رہتے کہ دائیں کی بجائے بائیں ہاتھ سے پکڑیں کیونکہ اس کھیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ فراموش دائیں ہاتھ سے پکڑا ہو۔

یوں سالی اور بہنوئی کے درمیان ہوشیاری اور حاضر دماغی کا مقابلہ رہتا۔ جیت اکثر سالی کی ہوتی۔ شاید لڑکیاں زیادہ ہشیار ہوتی ہیں یا پھر بہنوئی اس کھٹی میٹھی رسم سے محظوظ ہونے کے لئے جان بوجھ کر ہارتے ہوں۔ ہم نے اپنی پھپھو کو ان کے دولہا بھائی کے ساتھ یہ رسم کھیلتے دیکھا۔ ہماری خالہ جان نے والد صاحب کو چاندی کے نقشین کٹورے میں شربت کے بہانے، آم کا فراموش رکھ کر کڑھے ہوئے سرپوش سے ڈھک کر دیا۔ اور دو سو قلمی آموں کی سزاوار ہوئیں۔ ہماری ایک کزن نے نادر روزگار پستے کا فراموش جیجا جی کو تھما کر ان کے ہوش اڑا دیے۔

ہمارے میاں جی بھی کب محفوظ رہے۔ ان کی سالی نے کیلے کا فراموش دے کر دو سو کیلے جیت لئے۔ ہم نے جب بھی اپنے چھوٹے بہنوئی کو فراموش پکڑانے کی کوشش کی، مات ہی کھائی۔ وہ پانچ دریاؤں کا پانی پئے ہوئے، گھاگ، غزال کی مانند چوکنے، مجال ہے جو داؤ لگ جائے۔ اولاً تو وہ اس رسم سے ہی انکاری ہو گئے کہ ان کے ہاں تو ایسی رسم نہیں تو وہ کیوں کریں۔ ہم نے اس دلیل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ”روم میں وہی کرنا ہوتا ہے جو رومی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رسم ہے تو نبھانا ہوگی۔“

قاعدے قانون انہیں بتا دیے گئے اور یوں چناغ کی شرط بد گئی۔ وہ بھی حرفوں کے بنے تھے۔ کٹورے یا گلاس پر اگر سرپوش پڑا ہو تو ایسے بدک جاتے جیسے سانپ کی پٹاری دیکھ لی ہو۔ مجال ہے کہ تھام لیں بلکہ دائیں ہاتھ کو یوں پیچھے کھینچ لیتے گویا کمر سے باندھ لیں گے۔ قاب میں رکھا کیلے کا فراموش، کٹورے میں پڑا آم اور گلاس میں چھپایا گیا آلو بخارے کا فراموش ان کی دست درازی کو ترستا ہی رہ گیا۔ جھلا کے ہم نے کہا

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی
آخر اک نہ اک دن چھری کے نیچے آئے گی

جب ہم نے جانا کہ سرپوش ہی فساد کی جڑ ہے۔ چھوٹے میاں نے سرپوش کو ہوا ماں لیا ہے اور اسے دیکھتے ہی ان کے ریڈار کا الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو حذف کر دیا جائے تو مقصد براری میں کامیابی ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی شبہ تھا کہ ہماری صفوں میں سے کوئی غدار انہیں پہلے سے مطلع کر دیتا ہے۔ اور وہ، ان سے بیاہی گئی ہماری بہن کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ لہذا اگلی بار اپنی ساری منصوبہ بندی کو مقابل کی زوجہ سے مخفی رکھا گیا۔

موصوف کھانے میں مرچ مسالہ کم کھانے کے عادی ہیں۔ غلطی سے کھانے میں مرچ زیادہ پڑ جائے تو سر لب ہی نہیں سر سے بھی پسینہ پونچھنے لگتے ہیں۔ تاہم اس بار سہواً نہیں عمداً مرچ تیز رکھی گئی۔ بیچارے رومال کی گدی کبھی ناک تلے تھپتھپاتے، کبھی جبین پوچھتے تو کبھی چندیا پر رگڑتے۔ سی سی کی آوازوں کے درمان بار بار کہتے ”اپ لوگ کیسے اتنی مرچ کھا لیتے ہیں“

اور ہماری بہن جو ساری عمر اتنے ہی مرچ مسالے کے سالن کھا کر بڑی ہوئی تھیں، میاں کی ہاں میں ہاں ملانا فرض منصبی جانتے ہوئے کہنے لگیں

”ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔ کٹی مرچ ڈالی تھی تو پسی مرچ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ اوپر سے گرم مسالہ بھی چھڑک دیا۔ دہن میں آگ لگ گئی ہے گویا۔”

ہم نے پنجابی جھاڑتے ہوئے کہا ”تہاڈی خیر، آتش کدے کو سرد کرنے کا انتظام ہے۔ میٹھے میں چنے کی دال کا حلوہ بنایا ہے ”

امی کے ہاتھ کا چنے کی دال کا حلوہ پورے خاندان میں مثالی ہے اس لئے اس کا نام سنتے ہی ان کے چھوٹے داماد کی باچھیں کھل گئیں۔ مزیدار حلوے پر خشک میوہ جات اور چاندی کے ورق لگائے گئے تھے۔ پستے بادام کی ہوائیوں کے درمیان کہیں اکلوتا ”چلغوزے کا فراموش“ براجمان تھا۔ براون حلوے پر ہوائیوں کے درمیان چلغوزے کے فراموش کے دیکھ لئے جانے کا اتنا ہی امکان تھا جتنا بارش میں دھلے پتوں کے بیچ، ڈال پر بیٹھے خاموش طوطے کو تاک لینا۔ حلوے کی قاب پر سرپوش نہیں تھا اس لئے ان کے ریڈار نے کوئی الرٹ جاری نہیں کیا۔ ہم نے حلوے کی قاب عین ان کے داہنے ہاتھ کی جانب بڑھائی۔ سوز دہن سے بے کل ہو کر انہوں نے جونہی دائیں ہاتھ سے قاب پکڑی ہم نے نعرہ فتح یابی مارا۔

”فراموش“
سیانے میاں ہکا بکا قاب کو دیکھتے ہوئے بولے
”کون سا فراموش، کہاں ہے“

اور جب ہم نے انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان چلغوزے کا فراموش ان کی آنکھوں کے آگے لہرایا تو گویا غش ہی کھا گئے۔ ایک بار پھر رومال کی گدی سے چندیا کو تھپتھپانے لگے لیکن اس بار پسینے کی وجہ کھانے مین مرچ ہرگز نہیں تھی بلکہ وہ حساب کتاب تھا جو دو سو چلغوزوں کی مد میں ان کو ادا کرنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments